جب سے یہ ملک معرض وجود میں آیا اتہام، دشنام اور الزام تراشیوں کا سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا۔ لیاقت علی خان پر الزام لگا کہ انہوں نے بانی پاکستان کے ساتھ غیریت برتی۔ جب سفر آخرت کیلئے زیارت سے کراچی آئے تو یہ انکے استقبال کیلئے ایئرپورٹ پر نہ گئے بلکہ کابینہ کی میٹنگ میں مصروف رہے۔ بھیجی بھی تو ایک ناکارہ ایمبولینس جو ملیر ندی بھی پار نہ کر سکی۔ لیاقت علی خان کے قتل کا ذمہ دار پنجاب کے وڈیروں از قسم ممتاز دولتانہ اور پولیس کے SLEUTHS کو ٹھہرایا گیا۔ آئی جی خان قربانی علی خان کو وہ انکل کہتا تھا چچے بھتیجے میں کچھ نہ کچھ تو راز و نیاز سے ہونگے۔ غلام محمد گورنر جنرل کو فاتر العقل برہنہ گفتار مردم بیزار اور بدکردار گردانا گیا جس کی اپنی نوجوان انگریز سیکرٹری میں رتھ کے ہاتھوں کیک کھانے کے باوصف بھوک ختم نہیں ہوتی تھی۔ سکندر مرزا رنگین مزاج تو تھا ہی اسکے بدنام زمانہ سمگلر قاسم بھٹی کے ساتھ تجارتی مراسم کے خوب چرچے ہوئے۔ یہ الگ بات کہ جلاوطنی کے بعد لندن میں وہ ایک PAUPER کی حیثیت میں رہا۔ جب مرا تو اس کا بٹوہ ایک مفلس کے گالوں کی طرح پچکا ہوا تھا۔
ایوب خان کی مردانہ وجاہت کا راز برطانیہ کے پرفیومیو اسکینڈل میں کھلا۔ سوئمنگ پول میں سنہری مچھلی کی طرح تیرتی ہوئی سوسائٹی گرل کرسٹامین کیلر نے پاکستانیوں کا نام خوب روشن کیا۔ بولی ’’یہ تو انگریزوں کے بھی انگریز ہیں‘‘ یحییٰ خان کے متعلق کیا لکھا جائے۔ قلم خط نہیں اٹھاتا خون کے آنسو روتا ہے۔ ملک دولخت ہونے کے باوصف یہ شخص بصد حیرت و مستی غرق سے ناب تھا۔ شکست کے بعد جو تقریر کی اس کا ہر حرف شراب میں ڈوبا ہوا تھا عدم نے کہا تھا…؎
ایک مصرعہ شعور لکھتا ہے
ایک مصرعہ شراب کہتی ہے
اسے کیا علم تھا کہ ایک ایسا شخص بھی آئے گا جو مجسم شراب ہوگا۔ ذوالفقار علی بھٹو حسن پرست ضرور تھے لیکن انہوں نے کبھی بھی راگ رنگ کو اپنے فرائض کی تکمیل میں سّدراہ نہ بننے دیا ۔انہیں اس بات کا ادراک تھا کہ ہر کام کرنے کا ایک وقت اور طریقہ ہوتا ہے۔
جتنے صاحبان کا ذکر ہوا ہے انہوں نے مالی کرپشن نہیں کی۔ یہ سلسلہ بعد میں شروع ہوا اخلاقیات اور مالیات کی حدیں خلط ملط ہو گئیں۔ کرپشن کو آرٹ کے زمرے سے نکال کر سائنس بنا دیا گیا۔ آتھرکنین ڈائیل کے مشہور کردار شرلاک ہومز نے اپنی خوبیوں اورخداداد صلاحیتوں کی تشہیر کیلئے ڈاکٹر واٹسن رکھا ہوا تھا۔ ہمارے حکمرانوں نے تشہیر کیلئے واٹسنوں کی پوری پلٹنز کھڑی کر رکھی ہیں۔ یہ آرکسٹرا وقت بے وقت بجتا رہتا ہے واٹسن تو صرف سوفر کی خوبیوں کو اجاگرکرتا تھا یہ لوگ اپنے آقاؤں کی خامیوں، ناکامیوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈالتے ہیں۔
جب وطن عزیز کی تاریخ لکھی جائیگی تودو خاندانوں کا بالخصوص ذکر ہوگا بھٹو خاندان اور خاندان شریفاں۔ مؤرخ حیران ہونگے کہ کیسے ایک ایک عام سوچ کا حامل شخص تین مرتبہ پاکستان کا وزیراعظم بنا اور ہر مرتبہ اپنی بے تدبیری کی وجہ سے اقتدار سے محروم ہو گیا۔ فیض نے کہا تھا جو کوئے یار سے نکلے تو سوے دار چلے یہ تختہ دار سے ایوان اقتدار میں واپس آئے گو اس وقت قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں لیکن کچھ بعید نہیں کہ حالات ایک مرتبہ پھر پلٹاکھائیں۔ ہمہ مقتدر طاقتیں تجربے کرتی رہتی ہیں معافی کا دروازہ مستقلاً بند نہیں کرتیں۔ ہوسکتا ہے کہ موجودہ تجربہ توقعات پر پورانہ اُتر سکے۔ ملک جن حالات اورمشکلات سے گزر رہا ہے اس کیلئے زیرک معاملہ فہم، باتدبیر اور تجربہ کار حکومت چاہیے۔ کیا ایسا ہے اس کیلئے قبل از وقت کچھ کہنا مشکل ہے گو قرائین اور شواہد سے آنیوالے کل کی ہلکی سی اک تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔ موجودہ حکمرانوں کا سارا زور کرپشن کے خاتمے پر ہے، کم از کم اوپر والی سطح پر مثال بھی قائم کی جا رہی ہے لیکن معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے دو باتوں کا ادراک ضروری ہے۔ چند آدمیوں کی ایمانداری سے بیس کروڑ عوام کا ذہن نہیں بدلا جا سکتا۔ اس کیلئے جو وقت چاہیے وہ شاید حکمرانوں کے پاس نہیں ہے۔ کیا ان چھ ماہ میں محکمہ پولیس، مال، ایکسائز اینڈ ٹیکنیشن، اری گیشن، تعمیرات کے اہلکار مولوی بن گئے ہیں، ایک پٹواری جو پہلے فرد دینے کے ایک ہزار لیتا تھا اب چھ ہزار تک پہنچ گیا ہے۔ یہی حال باقی محکموں کا ہے، استدلال بڑا سادا ہے ، ڈالر کا ریٹ بڑھ گیا ہے، کمر توڑ مہنگائی ہے۔ پہلے اے سی، ایس پی کو کمک پہنچاتے تھے اب لوکل گورنمنٹ کے ناظمین وغیرہ بھی حصہ مانگتے ہیں۔ ہم نے پہلے بھی لکھا تھا مقامی حکومتوں کو فنڈ دینے کا تجربہ کامیاب نہیں ہو گا۔ ممبران اسمبلی ایسا نہیں ہونے دینگے کھل کر مخالفت کرینگے۔ پتہ نہیں یہ کیسے فرض کر لیا گیا ہے کہ یونین کونسل کے نمائندگان ایماندار ہونگے۔ اگر اس حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت ہوتی تو شاید… شاید یہ تجربہ کیا جا سکتا تھا بدقسمتی سے اسکے پاس سادہ اکثریت بھی نہیں ہے ’’یہ دریوزہ گر آتش بیگانہ ہے ‘‘۔ خان صاحب کا بیان محل نظر ہے جو وزیر ٹھیک کام نہیں کریگا بدل دیا جائیگا۔ بالغرض چند وزیر نااہل یا نکمے نکلتے ہیں تو کیا ایسا ممکن ہوگا ہر گز نہیں کیا وزیراعظم نے سوچا ہے کہ یہ انہیں ہٹانے کی پوزیشن میں آ جائینگے۔ شریف برادران نے ایک خوف کی فضا قائم کر رکھی تھی، ہر شخص کے ذہن نشین تھا کہ وہ شُتر کینہ میں گاجروں اور کلیمی کے درمیان عصا کا استعمال بھی جانتے ہیں…؎
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد
خان صاحب بوجوہ ایسا نہیں کر سکتے
مالی کرپشن کا تدارک ضروری ہے لیکن وہ کہا گیاہے
In Efficiency is the worst form of corruption
نارمل شخص کرپٹ آدمی سے زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ جس شخص کا نہ ہاتھ باگ پر ہو نہ پا ہو رکاب میں وہ کیسے محکمے کو ٹھیک طرح سے چلا پائے گا ؟ ویسے ہماری سوچ بھی عجیب ہے ہم اس شخص کی تعریف تو بہت کرتے ہیں جو پیسے نہیں لیتا لیکن اسکے کردار کے ان پہلوئوں سے صرف نظر کرتے ہیں جو وہ ملازمین کو ناجائز کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ میں نے اپنی سروس کے دوران ایسے وزراء کو دیکھا ہے جو ایک پیسہ لینے کے بھی روادار نہیں تھے لیکن انکے منشی سفارشی رقعوں کا ایک پلندا لیکر ہر روز دفتر آ جاتے تھے۔ استدلال بڑا عجیب تھا۔ یہ وزیر صاحب کے ووٹر ہیں۔ اگر ان کا کام نہیں ہو گا تو موصوف اگلا الیکشن کیسے جیت پائیں گے؟ ڈی سی چکوال کو بدلنے سے پہلے اس ممبر اسمبلی سے پوچھا جاتا‘ تم نے یک جنبش قلم بیس اہلکاروں کی سفارش کیوں کی ہے ؟۔ کیوں نہ تمہیں پارٹی سے نکال دیا جائے ؟۔ ڈی سی کی سادگی صرف اتنی تھی کہ اس نے حکومتی اعلان کو سچ مان لیا تھا۔ سرکاری ملازمین کوئی ناجائز سفارش نہ مانیں۔
حکومت اس وقت مالی مشکلات کا شکار ہے۔ شاکی ہے کہ سابقہ حکومت قرضوں کا پہاڑ کھڑا کر گئی ہے۔ ڈالر کی قدر مصنوعی طریقے سے نہیں بڑھنے دی۔ اشیائے خوردنوش کی قیمتیں بھی اسی قسم کی ہیرا پھیری سے روکے رکھیں۔ ن لیگ کا استدلال ہے کہ انہیں سب کچھ پیپلز پارٹی سے ورثے میں ملا تھا۔ زرداری مشرف پر الزام تھوپتے رہے۔ الزامات کے اس گورکھ دھندے میں پتہ نہیں چلتا کہ خرابی کا اصل ذمہ دار کون تھا ؟ ن لیگ نے جواباً کہا ہے جتنا قرضہ انہوں نے ایک سال میں لیا تھا اتنا تو اس حکومت نے چند ماہ میں لے لیا ہے۔ موجودہ حکومت سے بصد احترام پوچھا جا سکتا ہے اگر دس سال سے ڈالر کی قیمت مصنوعی طریقے سے نہیں بڑھی‘ قیمتیں نسبتاً کنٹرول میں تھیں تو آپ بھی چند ماہ کیلئے ہی سہی وہی روش اختیار کرتے۔ کم از کم غریب آدمی کا چولہا تو ٹھنڈا نہ ہوتا۔
اصل بات یہ ہے کہ الزام تراشی پر زیادہ دیر حکومت نہیں چلائی جا سکتی۔ ایک بات قابل غور ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے ہمیں چھ ارب ڈالر کیش ملنے ہیں۔ شرح سود ساڑھے تین فیصد ہے جوکہ ایک سال بعد واپس کرنا ہے۔ آئی ایم ایف ڈھائی فیصد پر قرضہ دیتا ہے جو بہرحال آپ نے لینا ہے۔ اسکی تمام شرائط پہلے ہی مان لی گئی ہیں۔ قرضے کی واپسی بھی چھ سے بارہ سال بعد ہونی ہے۔ ان حالات میں سارا قرض آئی ایم ایف سے کیوں نہیں لیا گیا ؟ اس صورت میں دیگر عالمی مالیاتی ادارے بھی قرض دیتے جو
What is the Big Deal
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024