حکمران جماعت کی اکثریت اور عمران خان کے اپنے چنیدہ مشیر احتساب کی بجائے دہاڑیاں لگانے کا سوچ رہے ہیں اور ریاست مدینہ کا تصور دھندلا رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم عمران کے اپنے قدم کب ڈگمگاتے ہیں۔ اس کا فیصلہ جنوری 2020 کے پہلے دو ہفتوں میں ہو جائیگا۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ’دوملاؤں میں مرغی حرام‘ ہو چکی ہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں ’فٹ بال‘ میچ جاری ہے اور گول کرنے کیلئے جان توڑ مقابلہ جاری ہے۔ عوامی حسابات کی جانچ پڑتال کرنیوالے پارلیمانی ادارے کے ساتھ کھلواڑ ہورہا ہے۔ کمیٹی کا حال غریب کے مقبوضہ پلاٹ جیسا ہو چکا ہے جس پر طاقتور قبضہ کر کے جھوٹے سچے کاغذات لیکر عدالت پہنچ جاتے ہیں۔ شہبازشریف کو پی اے سی کا چیئرمین رکھنے کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن میں جاری جنگ کا نیا طبل بج چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے پہلے شہبازشریف کویہ منصب دینا کیوں گوارا کیا؟ پرویز خٹک اور دیگر وزراء کا وفد اپوزیشن چیمبرکیوں بھیجا تھا؟ اب اس معاملے پر یوٹرن کیوں لے لیا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب حکومت کو دینا ہوگا 2000ء کے بعد ہے کہ کوئی وزیر PAC کا رْکن نہیں رہا، کسی وزیر کو رکن بننے کا شوق چرایا ہے تو وہ وزارت سے مستعفی ہوجائے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی یا عوامی حسابات کیلئے مجلس قومی اسمبلی کا طاقتور ترین ادارہ سمجھی جاتی ہے آئین کے آرٹیکل 171 کی رو سے آڈیٹر جنرل وفاق کے حسابات سے متعلق اپنی رپورٹ صدر پاکستان کو پیش کرینگے جو اسے مجلس شوری یعنی پارلیمان کو بھجوائیں گے۔ قومی اسمبلی میں پیش کردہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ قومی اسمبلی کے قاعدہ 177 دو کے تحت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو غور کیلئے بھجوائے گی۔
کمیٹی کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وفاق پاکستان نے جو خرچے کئے ہیں، ان اخراجات کا جائزہ لے، ان کی چھان پھٹک کرے۔ کمیٹی کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اس ضمن میں قانون سازی، عوامی شکایات اور متعلقہ وزارت کی پالیسیوں سے متعلق امور کو بھی جانچے۔ وہ ان وزارتوں سے منسلکہ اداروں کے بارے میں بھی اپنی تحقیق اور سفارشات متعلقہ وزارت کو ارسال کرسکتی ہے اور متعلقہ وزارت اس ضمن میں اپنا جواب کمیٹی کو بھجوانے کی پابند ہے۔ حکومتی اخراجات کے علاوہ حکومت کے سالانہ فنانس اکاؤنٹس کا بھی جائزہ لینے کی مختار ہے۔ کمیٹی پابند ہے کہ وہ اس امر پر تسلی وتشفی کرے کہ عوامی سرمایہ درست طورپر خرچ ہوا ہے اور قانونی ضابطے کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ یہ سرمایہ اسی مقصد کیلئے خرچ ہوا جس کیلئے جاری ہوا تھا۔ قاعدہ 203تین کے تحت مختلف سرکاری اداروں کے آمدن اور اخراجات کا بہی کھاتوں کی چھان پھٹک بھی اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
قیام پاکستان کے بعد پہلی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی 20مئی 1948ء کو قائم ہوئی تھی لیکن اس کا اجلاس نہیں ہوسکا تھا جس کے بعد دوسری پبلک اکاؤنٹس کمیٹی 14 اپریل 1951ء کو قائم ہوئی تھی جس کے چیئرمین وزیرمملکت خزانہ غیاث الدین پٹھان تعینات کئے گئے تھے۔ تیسری کمیٹی 12 اپریل 1953ء کو قائم ہوئی تھی جس کے چیئرمین وزیر خزانہ محمد علی تھے۔ چوتھی کمیٹی 13 اپریل 1956ء میں قائم ہوئی جس کے چیئرمین وزیر خزانہ سید امجد علی تھے۔ پہلی ایڈھاک پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تین مارچ1960ء کو قائم ہوئی جس کے چیئرمین وزیر خزانہ محمد شعیب تھے۔ پانچویں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی 13 جولائی1965ء کو قائم ہوئی جس کے چیئرمین رکن قومی اسمبلی نورالامین تھے۔ دوسری ایڈھاک پی اے سی 13 نومبر1965کو بنی جس کے چیئرمین نورالامین ہی تھے۔ تیسری ایڈہاک کمیٹی 12جون1970ء کو وجود میں آئی اور اسکے چیئرمین وزیرخزانہ مظفرعلی قزلباش بنائے گئے۔ چھٹی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی 18 اگست1972ء کو قائم ہوئی جس کے چیئرمین وزیر خزانہ مبشر حسن تھے اور پھر بعدازں وزیر خزانہ رانا محمد حنیف خان نے انکی پوزیشن سنبھال لی۔ چوتھی ایڈہاک کمیٹی پچیس مارچ1978ء کو بنی اور سٹیٹ بنک کے گورنر اے جی این قاضی چیئرمین بنائے گئے۔ پانچویں ایڈہاک کمیٹی پچیس اگست 1982ء کو بنی جسکے چیئرمین غلام اسحاق خان تھے۔ ساتویں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اٹھارہ اگست 1985ء کو معرض وجود میں آئی جسکے چیئرمین رکن قومی اسمبلی صاحبزادہ ایم علی شاہ بنائے گئے۔ آٹھویں پبلک اکاؤنٹس پندرہ مارچ 1989ء کو قائم ہوئی جسکے چیئرمین سابق صدر آصف علی زرداری کے والد اور اس وقت کے رکن قومی اسمبلی حاکم علی زرداری بنے۔ نویں پی اے سی سولہ مئی 1991ء کو بنی اور اس کے چیئرمین رکن قومی اسمبلی ایم حمزہ بنائے گئے۔ دسویں پبلک اکاؤنٹس اٹھائیس اگست 1995ء کو بنی اور رکن قومی اسمبلی راؤ ایم ہاشم خان چیئرمین بنے۔ گیارھویں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بارہ مئی 1997ء کو بنی جس کے چیئرمین رکن قومی اسمبلی ایم حمزہ تھے۔ چھٹی ایڈہاک پی اے سی پچیس اگست 2000ء کو بھی بنی جسکے چیئرمین ایچ یو بیگ تھے۔ تیرھویں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی دس اپریل 2008ء کو بنی۔ اسکے پہلے چیئرمین رکن قومی اسمبلی چوہدری نثار علی خان 19 ستمبر 2008ء کو بنے اور 14 دسمبر 2011ء تک اس منصب پر رہے۔ بعدازاں تیرھویں پی اے سی کے چیئرمین ایم این اے ندیم افضل گوندل نے 25 اپریل2012ء کو بنائے گئے اورپھر16مارچ 2013ء تک اس منصب پر فائز رہے۔ چودھویں پی اے سی 21 اگست2013ء کو بنی۔ رکن قومی اسمبلی سید خورشید شاہ 11 دسمبر2013ء کو اسکے چیئرمین بنائے گئے۔
موجودہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ارکان میں تحریک انصاف کے نورعالم خان، راجہ ریاض احمد، اعجازاحمد شاہ، سید فخر امام، ملک محمد عامر ڈوگر، خواجہ شیراز محمود، سردار نصراللہ دریشک، ریاض فتیانہ، منزہ حسن، سینیٹر شبلی فراز، سینیٹرسیمی ایزدی اور وزیر خزانہ اسدعمر شامل ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ارکان میں چیئرمین شہبازشریف کے علاوہ خواجہ محمد آصف، رانا تنویر حسین، شیخ روحیل اصغر اور سردار ایاز صادق شامل ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے راجہ پرویز اشرف،سید حسین طارق، سید نوید قمر، حنا ربانی کھر، سینیٹر شیری رحمن جبکہ ایم کیوایم پاکستان کے اقبال محمد علی خان، بی این پی کے محمد اختر مینگل، ایم ایم اے کی شاہدہ اختر علی بھی رکن ہیں۔ جبکہ علی نوازشاہ، سینیٹراحمد خان اور سینیٹر مشاہد حسین سید آزاد حیثیت میں کمیٹی کے رکن بتائے گئے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے جہاں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے قیام اور اسکے اختیارات کی تشریح کی گئی ہے۔ وہیں خلیفہ ثانی حضرت عمر کا قول بھی درج ہے جسے دیکھ کر کوئی بھی سوچ میں پڑسکتا ہے۔ شفافیت اور احتساب یا جوابدہی کے مقصد کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے حضرت عمر فار وق ؓ فرماتے ہیں کہ ’’اپنا حساب دو قبل اسکے آپکو حساب کیلئے طلب کیا جائے اور اپنے اعمال کا حساب لو قبل اسکے کہ آپکے اعمال کا حساب لیاجائے‘‘
سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایازصادق کیمطابق چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو عہدے سے ہٹانے کیلئے طریقہ کار ہی موجود نہیں۔ لہذا جب متعلقہ طریقہ کار دستیاب نہیں تو کمیٹی کے ارکان چیئرمین کو ہٹانہیں سکتے۔ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو عہدے سے ہٹانے کیلئے عدم اعتماد کی تحریک لانے کیلئے قواعد کار میں کوئی طریقہ کار متعین نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب تک کوئی رکن اسمبلی کسی وزارت پر فائز ہو وہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا رکن نہیں بن سکتا۔ کسی وزیر کو خواہش ہو تو وہ وزارت سے استعفیٰ دے اور پھر کمیٹی کا رکن بننے کیلئے شوق سے میدان میں آسکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب کوئی جماعت کسی کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا رکن مقرر کردے تو پھر سپیکر بھی اسے اس منصب سے ہٹانہیں سکتے۔ صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ خود وہ رکن اپنی مرضی سے کمیٹی کی رکنیت سے تحریری استعفیٰ دے۔
پارلیمنٹ کے ادارے، سسٹم کو نقصان پہنچے گا اور روایات کو نقصان پہنچے گا۔ وزیراعظم اور انکے ساتھیوں نے یہ رویہ اپنایا تو ہم بھی سارے نظام کو منجمد کرسکتے ہیں لیکن ہمیں ہچکچاہٹ یہ ہے کہ اس سے سسٹم اور اداروں کو نقصان پہنچے گا۔آنیوالے دنوں میں حکومت اور اپوزیشن میں کشیدگی بڑھے گا۔ اگر ووٹنگ ہوئی تو شہبازشریف اس عہدے سے ہاتھ دھونے پڑینگے۔موجودہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے کل ارکان بیس ہیں۔ ان میں سے سترہ ارکان حکومت کے ہیں اور تیرہ ارکان اپوزیشن سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر ووٹنگ ہوئی تو شہبازشریف کا چیئرمین کے عہدے پر برقرار رہنا ممکن نہیں۔ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے واضح کردیا ہے کہ اگر حکومت نے یہ اقدام کیا تو پھر یہ حکومت اکیلے ہی پارلیمنٹ چلالے۔ ہم دیکھیں گے کہ پھر اپوزیشن نے سٹینڈنگ کمیٹیوں یعنی مجالس قائمہ کا بھی حصہ رہنا یا نہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ اپوزیشن کا تمام تر زوربیان اور توجہ اپنے قائدین کو جیل یاترا سے بچانے پر ہے اور دوسری طرف حکومت اپنے اصل اہداف پر توجہ دینے کے بجائے محض زورکلام سے فتح حاصل کرنے کی آرزومند ہے۔ حکومت کی سوچ یا تو پہلے واضح نہیں تھی اور یا اب واضح نہیں۔ اگر یہی تماشا جاری رہا تو پھر پارلیمان کی رہی سہی وقعت بھی جاتی رہے گی اور حکومت اپنا وقت اسی کھیل تماشے میں برباد کربیٹھے گی جس کا تمام تر سیاسی فائدہ اپوزیشن کو ہوگا۔
الزامات کے گھناؤنے کھیل میں ایک سوال حکومت سے یہ بھی پوچھا جانا چاہئے کہ آپ نے دودھ کی رکھوالی ’’بلا‘‘ کیوں بٹھایا تھا لیکن ایک بات طے ہو چکی ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور انکے چند شوریدہ سر ، پرجوش ساتھیوں کے علاوہ ساری تحریک انصاف’ نون لیگ اور پیپلز پارٹی سب لوٹ مار اور کئے دھرے پر مٹی پاؤ تے اگے جاؤ پر متفق ہوچکے ہیں ۔ حکمران جماعت کی غالب پارلیمانی اکثریت اور عمران خان کے اپنے چنیدہ مشیر بھی احتساب کی بجائے دھاڑیاں لگانے کی فکر میں ہیں اور ریاست مدینہ کا تصور دھندلا رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم عمران کے قدم ڈگمگاتے ہیں یا نہیں‘ اس کا فیصلہ جنوری 2020 کے پہلے دو ہفتوں میں ہو جائیگا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024