نجم عزیز سیٹھی پاکستان کرکٹ بورڈ کے چئیرمین کی حیثیت سے متنازع بھی ہیں کامیاب بھی۔ متنازع وہ میاں نواز شریف سے قربت اور ماضی میں مختلف سیاسی جماعتوں بالخصوص(ن) لیگ کے قریب رہنے اور دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں مشکوک 35 پنکچرز کے بیانیے کیوجہ سے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور انیس سو بانوے ورلڈکپ کی فاتح ٹیم کے کپتان عمران خان سیاسی مخالفت کیوجہ سے انہیں تنقید کا نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ عمران خان کے نجم سیٹھی مخالف موقف اور نواز شریف کے انکی طرف جھکاو نے انہیں کرکٹ بورڈ میں کام کرنیکا موقع فراہم کیا اس وجہ سے انکے مخالفین کی فہرست میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جہاں تک تعلق نجم سیٹھی کی کامیابی کا ہے تو پاکستان سپر لیگ کا آغاز اور ابتک کامیاب انعقاد انکی اکلوتی اور سب سے بڑی کامیابی ہے۔ حقیقی معنوں میں اس منصوبے نے پاکستان کرکٹ میں نئی جان ڈالی ہے اسکے مثبت اثرات ہمیں مستقبل میں بھی ملیں گے۔ ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی اور جزوی بحالی میں بھی پی ایس ایل کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اسی دوران چیمپئنز ٹرافی میں کامیابی نے ملک میں کھیل کے فروغ اور دلچسپی بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ انگلینڈ میں کھیلی جانیوالی چیمپئنز ٹرافی میں نئے اور پرانے کھلاڑیوں کی مشترکہ کاوشوں سے کامیابی ملی اب پاکستان کرکٹ بورڈ کے چئیرمین نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ کچھ کھلاڑی بوڑھے ہو چکے ہیں اور نئی ٹیم تیار کرنیکی ضرورت ہے۔
کیا چئیرمین پی سی بی کو سلیکشن کے معاملات میں ایسے آزادنہ بیانات دینے چاہیں، کیا یہ پالیسی بیان تھا یا پھر ٹیم کے سینئر کرکٹرز کو واضح اور دو ٹوک پیغام، کیا یہ سلیکشن کمیٹی کے دائرہ کار میں مداخلت نہیں،بورڈ چئیرمین کے ان الفاظ کے بعد سلیکشن کمیٹی سینئر کرکٹرز کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں کس حد تک آزاد ہو گی، کیا واقعی ہمیں تجربہ کار کھلاڑیوں کی ضرورت نہیں، اگر یہ فیصلے بھی کرکٹ بورڈ کے چئیرمین نے کرنے ہیں تو پھر لاکھوں روپے ماہانہ لینے والی سلیکشن کمیٹی اور کروڑوں سالانہ لینے غیر ملکی کوچنگ سٹاف کی ذمہ داری کیا ہے؟؟؟؟
یہ اور اس سے ملتے جلتے سوالات کرکٹ کے حلقوں میں زیر بحث ہیں۔ نجم سیٹھی ماضی میں متعدد بار کھلاڑیوں کے انتخاب کے حوالے سے اسے سلیکشن کمیٹی کا دائرہ اختیار قرار دے چکے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ وہ خود کو ان معاملات سے دور رکھیں۔ سلیکشن کمیٹی اور کوچنگ سٹاف کے فیصلوں میں میرٹ پر کڑی نگاہ رکھیں لیکن انہیں اپنے کام میں آزادی دیں۔ سابق چئیرمین شہریار خان کہہ چکے ہیں کہ نجم سیٹھی انتظامی معاملات کو بہت اچھے انداز میں چلاتے ہیں انہیں مالی اور مارکیٹنگ کے کاموں پر مکمل عبور حاصل ہے۔ پی ایس ایل کا انعقاد بھی انکی کامیاب انتظامی صلاحیتوں کا ثبوت ہے۔ شہریار خان نے ایک اچھا وقت انکے ساتھ گذارا ہے انکی رائے کو خاصی اہمیت دی جاتی ہے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ نجم سیٹھی پاکستان کرکٹ کو حقیقی معنوں میں پیشہ وارانہ بنیادوں پر چلانے کی روایت ڈالیں، انتظامی سطح پر خامیوں کو دور کریں، اپنی توجہ ملک میں کرکٹ کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے، ماہر افراد کی تعیناتی اور تقرریوں کے معاملے میں میرٹ کی بالادستی پر رکھیں۔ اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر تک مالی و اخلاقی سفارش اور کرپشن کے خاتمے کے لیے اقدامات کریں۔ پاکستان سپر لیگ انکا بہت بڑا کارنامہ ہے لیکن یہ منزل نہیں ہے ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں انہیں ابھی بہت کام کرنا ہے توقیر ضیائ کو لوگ آج بھی اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے قومی کرکٹ کو نیشنل کرکٹ اکیڈمی کا تحفہ دیا۔ نجم سیٹھی کے پاس پاکستان سپر لیگ کے بعد کئی اور منصوبوں کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانے کا اچھا موقع ہے امید ہے کہ وہ اپنے اصل کام پر توجہ دیتے ہوئے ملک کے مقبول ترین کھیل اور طول و عرض میں پھیلے ٹیلنٹ کو یکساں مواقع فراہم کرنے کے لیے اقدامات کریں گے ایسے فیصلے کریں گے کہ ہمیں ورلڈ کلاس کرکٹرز ملیں۔ وہ کامیاب ہوئے تو انہیں بوڑھے اور جوان کھلاڑیوں کے حوالے سے کبھی کوئی بیان بھی نہیں دینا پڑے گا۔
اب ذکر ہو اپنے ہیڈ کوچ مکی آرتھر کا وہ ایک کامیاب کوچ ہیں یا ناکام اسکا فیصلہ تو انکا ماضی سب سے بہتر کر سکتا ہے لیکن کرکٹ دیکھنے والوں کے لیے وہ ایک کامیاب مزاحیہ اداکار ضرور ہیں انہوں ویرات کوہلی کے بارے میں کہا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف سینچری سکور نہیں کر سکتے۔ کہا تو انہوں نے بالکل درست ہے ایک اچھے کامیڈین کیطرح وہ جان چکے کہ نہ پاکستان اور بھارت کے مابین کرکٹ ہوگی نہ ویرات کوہلی کو تھری فگر اننگز کھیلنے کا موقع ملے گا۔ اسے ایک اچھا مزاح لکھنے یا کہنے کی حد تک تو مانا جا سکتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مکی آرتھر کا یہ کام ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے کھلاڑیوں کی سینچریوں پر نگاہ رکھیں کہ کون کیا کر سکتا ہے اور کون کیا نہیں کر سکتا۔ کیا انکا کام صرف بیانات سے تنازعات پیدا کرنا ہے؟؟؟
وہ یہ کام کیوں نہیں کرتے کہ فخر زمان نے پچاس کو سو میں کیسے بدلنا ہے، وہ یہ کام کیوں نہیں کرتے کہ احمد شہزاد کی ٹیم میں جگہ مستقل کیسے
کرنی ہے،وہ یہ کام کیوں نہیں کرتے کہ عمر اکمل کی صلاحیتوں سے فائدہ کیسے اٹھانا ہے، وہ یہ کام کیوں نہیں کرتے کہ بابر اعظم کی ٹیسٹ کرکٹ میں کارکردگی کو بہتر کیسے بنانا ہے، وہ شاداب خان کو لمبی کرکٹ میں موثر بنانے پر کام کیوں نہیں کرتے، وہ ایک اچھا اوپننگ پئیر بنانے پر توجہ کیوں نہیں دیتے، وہ اپنے ٹیم کامبی نیشن کو بہتر بنانے کے لیے زیادہ وقت کیوں صرف نہیں کرتے، کیا مکی آرتھر کا کام صرف یہ ہے کہ وہ دورے پر ٹیم کے ساتھ رہیں کیمرے کے سامنے پاکستانی کھلاڑیوں کی تذلیل کریں،بورڈ سے لاکھوں روپے ماہانہ وصول کریں، اپنے گھر چھٹیاں گذاریں، ذاتی پسند نا پسند پر باصلاحیت کرکٹرز کو قومی ٹیم سے دور کریں۔
کیا ہمیں ایک کامیڈین کی ضرورت ہے یا پاکستان کرکٹ کے لیے کام کرنیوالے کوچ کی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے فیصلہ ساز اس لاڈلے کا احتساب کب کریں گے۔ کبتک اسکی رنگت کی وجہ اسے ڈھیل دی جاتی رہے گی؟؟؟؟
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024