قومی بچت اپ گریڈیشن ٹینڈر کے آڈٹ میں سنگین اعتراضات
اسلام آباد (عترت جعفری) سی این ڈی سی (قومی بچت) کے ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن اور سپورٹ سروسز کے حوالے سے دیئے جانے والے ٹینڈر پر آڈٹ میں سنگین اعتراضات اٹھائے گئے ہیں اور اب تک ان اعتراضات کو دور نہیں کرایا جا سکا۔ سی این ڈی سی کی ایک دستاویز بتاتی ہے کہ ڈی جی کی ہدایت پر ٹینڈر ’’ٹیکنیکل مارکنگ‘‘ پر نظرثانی کی گئی اور ٹھیکہ دیا گیا۔ ٹھیکہ کے حوالے سے موجود دستیاب دستاویز یہ بتائی ہے کہ سنٹرل ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل سوئنگ کی ’’اپرو پریشن اکاؤنٹس‘‘ نے سرٹیفکیٹس آڈٹ کے دوران یہ نوٹ کیا گیا کہ انتظامیہ نے 18 فروری 2017 ء کو ’’ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن اور سپورٹ سروسز کے لئے ٹینڈر جاری کیا۔ جسے 9 مارچ 2017 ء کو کھولا گیا۔ ’’فنانشیل بڈ‘‘ 27 مارچ 2017 ء کو کھولی گئی۔ میسرز ’’’ایکیس (Access) کنسلٹینگ کراچی کو 21 جون 2017 ء کو کنٹریکٹ دیا گیا۔ انتظامیہ نے 64 لاکھ روپے کی کنٹریکٹ کی 20 فیصد رقم جاری کر دی جس کے لئے چیک نمبر 956588 ‘ 22 جون کو جاری کیا گیا۔ 23 جون 2017 ء کو ’’گرانٹ تھورن ٹن‘‘ کے نام چیک نمبر 928369 جاری کیا گیا۔ آڈٹ نے لکھا ہے کہ ریکارڈ کے جائزہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایس ای سی پی نے میسرز ایکسیس کنسلٹنگ کراچی کا نام میسرز گرانٹ تھورن ٹن‘‘ ٹیکنالوجیز رکھنے کی منظوری دی۔ یہ اجازت 27 جنوری 2015 ء کو دی گئی۔ اس فرم نے بعدازاں اپنا نام ایک بار پھر ’’تھورن ٹن‘‘ ٹیکنالوجیز سے تبدیل کر کے ایکسیس (Access ) کنسلٹینگ کراچی‘‘ رکھ لیا۔ آڈٹ نے لکھا اس سے ظاہر ہوتا کہ فرم بار بار اپنا نام تبدیل کرنے کی عادت کی حامل ہے۔ سی این ڈی سی کی انتظامیہ نے میسرز ایکسیس کے نام ادائیگی کی بجائے میسرز گرانٹ ’’تھورن ٹن‘‘ کراچی کے نام چیک جاری کیا جو وجود ہی نہیں رکھتی تھی۔ کراچی کے بینک کی 3.3 ملین روپے کی بینک گارنٹی میسرز گرانٹ ’’تھورن ٹن‘‘ ٹیکنالوجیز کا نام ظاہر کرتی ہے جبکہ اس تاریخ کو یہ فرم موجود ہی نہیں تھی۔ اب جبکہ فرم نے اپنا نام تبدیل کر لیا تھا اس لئے ضروری تھا کہ نیا ٹینڈر جاری کیا جاتا تاکہ حکومت کے مفاد کا تحفظ کیا جاتا۔ سی این ڈی سی نے ایڈوانس ’’پے منٹ‘‘ دی کیونکہ مالی سال کا اختتام ہو رہا تھا اور انتظامیہ پیسے کو ’’لیپس‘‘ ہونے سے بچانا چاہتی تھی۔ ایس ای سی پی کراچی کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ 23 جون 2017 ء کو ’’میسرز تھورن ٹن‘‘ ٹیکنالوجیز لمیٹڈ نام کی کوئی فرم موجود نہیں تھی۔ اس لئے فرم کو ادائیگی قانون کے مطابق نہیں تھی۔ اس کے جواز میں سی این ڈی سی نے جواب دیا کہ ایس ای سی پی کسی فرم کو ایک جیسا رجسٹریشن نمبر جاری نہیں کرتا ہے۔ دونوں کا نیشنل ٹیکس نمبر ایک ہی ہے۔ جبکہ دونوں کا ایڈریس بھی ایک ہی ہے۔ چیکوں پر ٹیکس کاٹا گیا جو حکومت کے خزانے میں جمع کرایا گیا۔ دونوں فرمز دراصل ایک ہی ہیں۔ آڈٹ نے ادارے کے جواب کو تاحال قبول نہیں کیا ہے۔ واضح رہے کہ سی این ڈی سی میں سکیموں میں سرمایہ کاری میں کمی آ رہی ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے سرمایہ کاری 682 ارب روپے رہ گئی ہے۔
قومی بچت/ ٹینڈر