ریڈیو اور تھیٹر سے اداکاری کو نکھار ملا قاضی واجد کا ایک یادگار انٹرویو
سوال: پڑھنے لکھنے کی عمرمیں صداکاری اور پھراداکاری کاشوق کیونکرپیداہوا؟
قاضی واجد: میں نے بھی بچپن میں اسی ماحول میںریڈیوسنا تودل میں خواہش جاگی کہ کیوں میں بھی براڈ کاسٹر بنوں۔ پڑھائی میں ویسے ہی دل نہیں لگتا تھا۔ سوکسی طرح حیدرآباد ریڈیو ا سٹیشن پہنچ گیا۔ آڈیشن میں پاس ہوا توبس سلسلہ چل نکلا۔ 1956ء میں بچوں کے ایک پروگرام سے باقاعدہ کیرئیرشروع کیا۔ اسی برس فلم ’’بیداری‘‘ میں مجھے کام مل گیا۔ یہ بالی ووڈ فلم ’’جاگرتی‘‘ کی کاپی تھی۔ اس فلم کے سبھی گیت بڑے مشہورہوئے۔ خاص طورپر’’آئو بچو سیر کرائیں تم کو پاکستان کی‘‘ آج بھی مقبول نغمہ ہے۔ اس فلم میں مجھے ایک طالب علم کامختصر سارول ملا تھا۔ مجھے پتہ تھا کہ کردارمیں جان پیداکرنے کے لئے کچھ خاص کرناہوگا۔ میں نے اپنے ڈائیلاگ کچھ انداز دے ہکلا کراداکئے کہ خوب واہ واہ ہوئی۔ جب 1967ء میں کراچی میں ٹی وی ا سٹیشن قائم ہوا تو میں ادھر آنکلا۔ ’’ایک ہی راستہ‘‘ میرا پہلا ڈرامہ تھا۔ اگر چہ میں دبلا پتلا تھا‘ لیکن میں نے غنڈے کاکرداراداکیا جسے پسند کیا گیا۔ دوسرے سیریل ’’آج کا شعر‘‘ تھا۔ اس دوران ریڈیو میں کام کا سلسلہ بھی چلتارہا اور 80ء کی دہائی میں ریڈیو میں پکی نوکری مل گئی۔ 2004ء میں ایک سال قبل ہی ریٹائرمنٹ لے لی۔ ریڈیو کے بغیر میں آج بھی خود کوادھوراسمجھتاہوں۔ میں کتناہی مصروف کیوں نہ ہوں‘ ریڈیو کے لئے ضرور وقت نکالتا ہوں۔ اسی زمانے میں مجھے تھیٹر پرکام کا موقع بھی ملا۔ تعلیم بالغان‘ لال قلعے سے لالو کھیت اوروادی کشمیر جیسے ڈراموں کی وجہ سے بہت عزت ملی۔ ہمارے زمانے کا تھیٹر بڑامعیاری تھا بلکہ اس وقت اسکرپٹ اتناجاندارہوتاتھاکہ یہ آج کے حالات سے بھی مطابقت رکھتاہے۔ اسی لئے میں کہتاہوں کہ اس دور کا تھیٹر ڈرامہ اپنے معیارکی بدولت آج بھی لوگوں کے ذہنوں میںزندہ ہے۔ ریڈیو اور تھیٹرکی وجہ سے ہی میری اداکاری میں نکھار پیداہوا۔ یہاں ایک اور دلچسپ بات بھی بتاتا چلوں کہ میں نے اس وقت بھی ٹی وی پرکام کیا جب پاکستان میں کہیں بھی پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات کاباقاعدہ آ غازنہیں ہوا تھا‘شاید یہ ساٹھ کی دہائی تھی کہ کراچی میں ایک کلوزسرکٹ نمائشی ٹی وی کاآغازہوا میں نے پہلی مرتبہ وہیں کیمرے کاسامناکیا۔
سوال:1967ء میں کراچی میں ٹیلی ویژن سینٹر کے قیام کے بعد تو آپ اسی کے ہو کر رہ گئے ہوں گے؟
قاضی واجد: جن دنوں کراچی میں پی ٹی وی کاا فتتاح ہوا‘ میں لاہور میں ’’مرزاغالب بندر روڈ پر‘‘ اسٹیج میں حصہ لے رہا تھا۔ کچھ عرصے بعد کراچی آکر پی ٹی وی کا حصہ بننا ایک طرح سے فطری امر تھا۔ ویسے بھی ان دنوں کراچی سینٹرمیں ٹی وی کے اپنے لوگ بہت کم تھے۔ آغاناصر‘ فضل کمال‘اسلم اظہر اورذکاء درانی جیسے نامورلوگ ریڈیو ہی سے آئے تھے۔ کراچی سینٹر کی بڑی ڈرامہ سیریل ’’خداکی بستی‘‘ نے مجھے پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پاکستان سے باہربھی بے پناہ عزت اورپہچان دی۔ یہ ڈرامہہ پی ٹی وی کو دو مرتبہ بناناپڑا کیونکہ پہلی مرتبہ بنایا جانے والا ڈرامہ محفوظ نہیں کیا جاسکا تھا۔
سوال :آپ نے پی ٹی وی لاہور سینٹرمیں نہ ہونے کے برابر کام کیا‘کیا وجہ تھی؟
قاضی واجد:دراصل میں 1980ء میں بطوراسٹاف آرٹسٹ ریڈیوکراچی سے وابستہ ہوگیا تھا اور اس زمانے میں ریڈیو سے کئی ہفتوں کی چھٹی نہیں ملتی تھی۔ اس لئے چاہ کر بھی صرف کراچی سینٹر تک محدود رہا حالانکہ لاہور سینٹر میں بڑامعیاری کام ہورہا تھا اوریہاں قوی خان‘ علی اعجاز‘کمال احمد رضوی اورننھا جیسے لوگ کام کررہے تھے۔ البتہ میں نے کراچی سینٹرمیں بے بہا کام کیا۔ کہتے ہیں کہ لاہورسینٹر میں سب سے زیادہ ڈرامے قوی خان جبکہ کراچی سے میں نے کئے تمام ترکامیابیوں کے باوجود میں آج بھی خود کواداکاری کا طالب علم سمجھتاہوں۔ کسی جونیئرفنکارمیں بھی کوئی اچھی چیزنظر آئے تو اسے اپنا لیتاہوں۔
سوال: آپ اورقوی خان ’’کیوز کی جوڑی‘‘ کیونکرمشہور ہوئے؟
قاضی واجد:میں اورقوی لاہور میں ایک ساتھ تھیٹرپر کام کیاکرتے تھے۔ اکثر لاہور آنا ہوتا تو میں زیادہ تر وقت قوی کے ساتھ ہی گزارتا۔ بعد میں ہم نے ایک ساتھ ڈراموں میں بھی کام کیا۔ ہمارا خوب جوڑ پڑتا تھا۔ چنانچہ ہمیں نام کے پہلے حروف کی نسبت سے ’’کیوز کی جوڑی‘‘ کہا جانے لگا۔ قوی کے علاوہ میری رفیع خاور المعروف ننھا‘ علی اعجاز اور طارق عزیز سمیت کئی فنکاروں سے دوستیاں رہیں‘ قوی خان سے تعلق اورپر خلوص رشتہ آج بھی قائم ہے اور مجھے فخر ہے کہ میرا دوست پاکستان کاپہلا ٹی وی آرٹسٹ اور پہلا ہیرو ہے۔
سوال: آپ سے پچاس برس پہلے اورآج کے ڈرامے میں کیا خاص تبدیلی آئی ہے؟
قاضی واجد: میں تو سمجھتا ہوں کہ ماضی اور آج کے ڈراموں میں زمین آسمان کافرق آچکا ہے۔ مثال کے طورپر پی ٹی وی لاہور سینٹرمیں ڈرامہ لائیو نشر کیا جاتا تھا اورکراچی میں اس کی ریکارڈنگ تو ہوا کرتی تھی لیکن نان لینیئر ایڈیٹنگ کی ٹیکنالوجی دستیاب نہ تھیں۔
سوال: بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ڈراموں کی بہتات سے اس کامعیارگر گیا ہے‘ کیایہ سچ ہے؟
قاضی واجد: میں نہیں سمجھتاکہ چند برے ڈراموں کی وجہ سے ڈرامہ انڈسٹری کوغلط کہا جاسکتا ہے۔ بلاشبہ جب دھڑا دھڑا ڈرامہ چینلزکھلیں گے اور یہ بزنس بن جائے گا تو کچھ غلط بھی ضرورہوگا لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کس قدر شاندار ڈرامے بھی بن رہے ہیں اورکتنے نئے فنکاروں کوروزگارا ورشناخت ملی ہے۔ ہاں اشتہارات کی بہتات کی وجہ سے ڈرامے کا تسلسل متاثرہواہے۔ ہمارے زمانے میں اتنے اشتہار نہیں چلتے تھے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اشتہارات نہ ہوں تو اس طرح دھڑا دھڑ ڈرامے بھی نہ بن سکیں۔ اب ہمیں ڈرامے کا اسکرپٹ مضبوط بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ ناولوں پربننے والے کئی ڈرامے سپرہٹ ہیں لیکن اسے کامیابی کا فارمولا بنالینا درست نہیں۔ امجد اسلام امجد‘ اصغر ندیم سید‘ منو بھائی اوریونس جاوید سمیت دیگر پرانے لکھاریوں کو کسی بھی طرح منت سماجت کرکے ڈرامہ لکھنے پر قائل کرناہوگا۔ سوال: کیاڈرامہ انڈسٹری میں اقرباء پروری کوفروغ نہیں دیاجارہا؟
قاضی واجد: میں بالکل ایسا نہیں سمجھتااس بات میں کوئی شک نہیں کہ فنکار گھرانے سے تعلق کی بدولت ا ندسٹری میں قدم رکھناخاصا آسان ہوجاتاہے تاہم یہ کسی بھی نوآموز کے لئے کڑی آزمائش بھی بن جاتاہے۔ بالی ووڈ کی مثال ہی لے لیں‘ امیتابھ بچن جیسے سپراسٹارکابیٹاابیشک بچپن آسانی سے انڈسٹری میں آتو گیا ناقدین نے اس کے لئے معیار بھی امیتابھ بچن جیسا ہی مقررکیا جس کے نتیجے میں وہ آ ج بھی وہ اپنی الگ شناخت قائم کرنے کے لئے ہاتھ پائوں مارہاہے۔ اسی طرح ہماری ڈرامہ انڈسٹری میں بھی کئی لڑکے لڑکیاں فنکارگھرانوں سے آئے لیکن سب کو کامیابی نہیں ملی‘ کیونکہ اسکرین پرکسی کے ماں باپ اوربہن بھائی کام نہیں کرتے‘ فنکارکاٹیلنٹ ہی اسے آگے لے کر جاتاہے۔
سوال: جس دورمیں آپ نے کام کیا‘ تب لوگ راتوں رات مشہورہوجاتے تھے اورپھرمدتوں یاد رکھے جاتے‘ کیا آج شہرت ناپائیداری نہیں ہوگی؟
قاضی واجد: آج سے30 سال قبل اگر کوئی فنکار معمولی رول بھی کرلیتا تھا تو مشہورہوجاتا تھا۔ آج نام برقراررکھنے کے لئے بہت محنت کی ضرورت ہے۔ وقت کے ساتھ لوگوں کے مزاج بدل چکے ہیں۔ اب ہرآدمی کچھ نیا چاہتاہے۔ دراصل پی ٹی وی پاکستان کا اکلوتا ٹی وی چینل تھا۔ بعد میں اکا دکا چینل ابھرے لیکن پی ٹی وی کے ڈرامے تک کوئی نہ پہنچ سکا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں بیسیوں ڈرامہ چینلزہیں اوریہ سبھی چوبیس گھنٹے اپنی نشریات پیش کررہے ہیں۔ سبھی بڑے فنکاروں کے ڈرامے بیک وقت مختلف ٹی وی چینلز پر آن ائیر ہیں لیکن پھربھی بعض اوقات بتانا پڑتاہے کہ میں فلاح چینل پرفلاں ڈرامے میں آرہا ہوں۔ کیونکہ کیبل پر سیکڑوں چینلز تو چل رہے ہیں لیکن ناظرین کے ہاتھ میں ریموٹ کنٹرول بھی ہے۔ ویسے سوشل میڈیا اورروایتی ذرائع ابلاغ کی وجہ سے نئے فنکاروں کو بھی بہت جلد شہرت مل جاتی ہے۔ میں گزشتہ پانچ عشروں سے ٹیلی ویژن پر کام کررہاہوں لیکن میرے بیشترمداح مجھے آج بھی پرانے ڈراموں سے پہنچانتے ہیں۔ آج بھی لوگ مجھے خا کی بستی‘ تنہائیاں اور دھوپ کنارے کے حوالے سے پہنچانتے ہیں۔
سوال: کیااب ہمارے ہاں بھارتی ڈراموں کاسحر ختم ہوگیا ہے؟
قاضی واجد : بھارت میں فلم ہمیشہ سے مضبوط رہی ہے مگر ڈرامہ کبھی پاکستان سے اچھا نہیں کرسکے اس کے برعکس ہمارے ہاں فلم سے زیادہ ڈرامے پرتوجہ دی گئی ہے۔ اس لئے دنیا بھرمیں ہمارا حوالہ ڈرامہ کے اعتبارسے زیادہ مضبوط ہے۔ اورپڑوسی ممالک میں ہمارے ڈرامے لائبریری میں بہت حفاظت سے رکھے جاتے ہیں اور دوران تربیت نئے فنکاروں کویہ ڈرامے دکھائے جاتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے کسی اعزاز سے کم بات نہیں ہے۔