چودھری نثار کی پریس کانفرنس کے مضمرات
سابق وزیرداخلہ چودھری نثار نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ نوازشریف اور شہباز شریف ایسے سینیئرز کے نیچے کام نہیں کر سکتا۔ میں منافق ہوں اور نہ اتنا سیاسی یتیم کہ اپنے سے جونیئر کو سر یا میڈم کہہ کر مخاطب کرتا رہوں۔
چودھری نثار کا شمار ملک کے سینئر سیاستدانوں میں ہوتا ہے اور جن کے استقلال کا یہ عالم ہے کہ آج بھی اسی پارٹی اور قیادت کے ساتھ کھڑے ہیں جس کے ساتھ سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے جب سے پارٹی قیادت پر پاناما لیکس کیس کی افتاد پڑی ہے اور وہ شکوے شکایتوں میں کچھ زیادہ ہی آگے نکل گئے ہیں تو یہ چودھری صاحب ہی ہیں جنہوں نے قیادت کی اداروں کے ساتھ صف آرائی سے برملا اختلاف کیا۔ دل گرفتگی کے اس دور میں جبکہ نواز شریف کو، دلجوئی کی ضرورت تھی، انکی صاحبزادی مریم نواز ہی انکے ساتھ کھڑی نظر آئیں۔ انہوں نے بڑی کامیابی سے حلقہ این اے 120 میں والدہ محترمہ کی انتخابی مہم چلائی، جو لندن میں زیر علاج تھیں۔ محترمہ کلثوم نواز رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں اور یوں مریم نہ صرف سرخرو ہوئیں۔ ابھی تو کسی گوشے سے بھی نہیں کہا گیا کہ مریم نواز پارٹی قیادت کریں گی، لہٰذا ایک خیالی موضوع پر پریس کانفرنس کرنے یا پارٹی کے باہر اسے زیر بحث لانے کی ضرورت نہ تھی جب کہ خود یعنی چودھری صاحب اس بات کے قائل ہیں کہ ’’اس نوعیت کے معاملات پبلک فورم پر نہیں، پارٹی کے اندرونی فورم پر زیر بحث لائے جانے چاہئیں‘‘، نوازشریف کی نااہلی نے، مسلم لیگ اور اسکی حکومت کو آئندہ انتخابات کے حوالے سے بھاری آزمائش سے دوچار کر دیا ہے۔ اس موقع پر ایسی اختلافی باتیں پارٹی کو کمزور کر سکتی ہیں۔ پھر یہ بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ پارٹی قیادت کے لئے صرف عمر نہیں، بلکہ دیگر بہت سی صلاحیتوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ مرحومہ بے نظیر بھٹو نے پیپلزپارٹی کی باگ ڈور سنبھالی، تو چند ایک برخود غلط ’’انکلوں‘‘ کے سوا پارٹی کے سب بزرگوں نے انہیں تہہ دل سے قائد تسلیم کر لیا۔ بے نظیر بھٹو کے بعد اب پارٹی کی باگ ڈور نوجوان بلاول، جو کہ عمر میں مریم نواز سے پندرہ بیس سال چھوٹے ہیں، کے ہاتھ میں ہے۔ سب سینئر لیڈر، حتیٰ کہ انکے والد محترم بھی انہیں لیڈر مانے بیٹھے ہیں۔ اس کا اثر یہ ہوا ہے کہ پارٹی میں ازسرنو جان پڑ گئی ہے۔لہٰذا پارٹی اور ملک و قوم کے وسیع ترمفاد میں انا کی قربانی دینی ہی پڑتی ہے۔