عظمت ٹوٹ ٹوٹ کر عاصمہ جہانگیر پر برس رہی ہے، انکی ناگہانی موت نے پاکستان ہی نہیں سرحد پار ہندوستان میں صف ماتم بچھا دی ہے۔ ایک خاص مکتبہ فکر نے تو کہرام برپا کردیا ہے لیکن انکے قابل اعتراض رجحانات اور رویوں پر تنقید کرنیوالے بھی بہت ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ بے باک اور دلیر خاتون تھیں۔ کہا جارہا ہے کہ عاصمہ جہانگیر گونگوں کے دیس میں زبان رکھتی تھیں۔ ایک بہادر خاتون، مظلوموں کی ساتھی، اپنے موقف کا ڈنکے کی چوٹ پر اظہارکرنی والی، منافقت سے پرے ہر مسئلے پر واضح پوزیشن لینے والی تھیں ان کی ناگہانی موت سے ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا جس کو پورا کرنا مشکل ہو گا، جمہوریت اور انسانی حقوق کیلئے آپ کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیگی۔ آئین و قانون کی حکمرانی، جمہوریت اور انسانی حقوق کیلئے ایک مضبوط اور توانا آواز خاموش ہوگئی۔ لاچار، بے سہارا، بے آواز جمہوریت اور آزادی پسند لوگوں کے سر سے آج چھت اْٹھ گئی۔ صدر‘ وزیراعظم اور تمام بڑے رہنما انکی موت پر اظہار افسوس کررہے ہیں۔ جبری گمشدگیاں عاصمہ کا پسندیدہ موضوع تھا۔ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ گذشتہ سال 2017 بھی حسبِ روایت جاری رہا۔ اقوامِ متحدہ کسی بھی فرد کی جبری گمشدگی کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیتی ہے کہ ہر فرد کی حفاظت حکومتِ وقت کی اولین اور بنیادی ذمہ داری ہے، مختلف وجوہات کی بنا پر پاکستان میں ہر سال سینکڑوں افراد منظرعام سے غائب ہوجاتے ہیں یہ الزام تواتر سے لگایا جاتا ہے کہ ان کو جبری طور پر گمشدہ کر دیا گیا ہے۔
ڈیفنس آف ہیومن رائیٹس کی سال گذشتہ کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے سال ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کو جبری گمشدہ افراد کے حوالے سے 132 درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے 54 کا تعلق پنجاب سے، 46 کا خیبر پختونخوا سے، 6 کا دارالحکومت اسلام آباد سے، 16 کا صوبہ سندھ سے، 5 کا بلوچستان سے اور 2 کا آزاد کشمیر سے ہے جبکہ خوشی کی بات یہ ہے کہ اسی دوران 39 گمشدہ افراد اللہ کے فضل سے سلامتی سے اپنے گھروں کو واپس پہنچے۔ وہیں بدقسمتی سے انٹیرو گیشن سنٹروں سے گمشدہ افراد کی لاشیں بھی مسلسل نکلتی رہی ہیں۔ اب تک سال گذشتہ 2017 گمشدہ افراد اور ان کے اہل خانہ کیلئے اْمید کی کرن سے کم نہیں رہا۔ اسی سال طویل وقفے کے بعد سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت دوبارہ سے شروع کی جس میں پاکستان کے مختلف علاقوں کے لاپتہ افراد کے مقدمات لگائے گئے۔ ماضی کے طرح حکومت اس معاملے پر عدالت کے فیصلوں پر عملدرآمد کرنے میں اب کے برس بھی ناکام رہی۔ اسی سال لاپتہ افراد کے مقدمات کے دوران عدالتِ عظمیٰ کے جج جناب جسٹس اعجاز افضل کے ریمارکس صورتحال کی بہت درست عکاسی کرتے ہیں جب انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے سب سے اعلیٰ انصاف کے ادارے سپریم کورٹ کے پاس لاپتہ افراد کے لواحقین کو دینے کیلئے جواب تک نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ تمام لاپتہ افراد کے خلاف اگر کوئی الزامات ہیں تو ان کے بارے میں تفصیلات فراہم کرے اور عدالت کو ’’سیاہ اور سفید‘‘ کے انداز میں حقیقت بتائی جائے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ چئیرمین سینٹ جناب رضا ربانی کی سربراہی میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی کاروائی ڈیفنس آف ہیومن رائیٹس کی نظر میں لائقِ تحسین ہے۔ سینٹر فرحت اللہ بابر کا کمیشن برائے جبری گمشدہ افراد کی تحلیل اور نئے کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ وقت کی ضرورت ہے جس کا خیرمقدم کیا جانا چاہئے جبکہ جبری گمشدہ افراد کے لواحقین موجودہ کمیشن برائے جبری گمشدگی کی مقدمات کے پیروی میں ٹال مٹول کی پالیسی سے تنگ آ چکے ہیں اور عدالت ِ عظمٰی سے استدعا کرتے ہیں کہ انکے مقدمات کی شنوائی سپریم کورٹ میں ہی کی جائے کیونکہ اتنے سنگین انسانی حقوق کی مقدمات کے ساتھ نمٹنا کیمشن کے بس کا روگ نہیں۔
ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چئیر پرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے اکتوبر میں جنیوا میں ہونے والے پری یو پی آر (Pre UPR) میں شرکت کی اور اپنی تنظیم کے پاس رجسٹرڈ ہونیوالے جبری گمشدگیوں کے مقدمات کے بارے میں آگاہ کیا جس کے بعد 13 نومبر کو جینیوا میں 194 ممالک نے پاکستان کے انسانی حقوق کے حوالے سے ریکارڈ جائزہ لیا اور پاکستان کو ڈھائی سو سے زائد سفارشات موصول ہوئیں۔ ان میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ حکومتی ادارے جبری گمشدگی کے عمل میں ملوث ہیں اور اس کیلئے بنائے گئے بین الاقوامی کنونشن پر دستخط اور اسکی توثیق کرنے کے بارے میں باضابطہ طور پر اعلانیہ وعدہ کر چکا ہے مگر گزشتہ بارہ سالوں میں اس وعدے کے باوجود نہ تو پاکستان نے اس کنونشن پر دستخط کئے ہیں اور نہ اس کی توثیق کی ہے۔ 15 سے زائد امریکی اور یورپی ممالک نے بھی جبری گمشدگیوں کے بارے میں خصوصی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے نشاندہی کی ہے کہ یہ قانون شکنی بتدریج بڑھ رہی ہے اور اس بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی وجہ سے پاکستانی معاشرہ خوف، دکھ، پریشانی اور معاشی بدحالی کا شکار ہو رہا ہے۔ ان ممالک نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ پاکستان یو این کنونشن پر دستخط کرے اور سپریم کورٹ کے ذریعے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
آمنہ مسعود جنجوعہ رنگ و بو کو متشکل کرنے والی مصورہ تھیں، پنجاب یونیورسٹی فائن آرٹس سے امتیاز کیساتھ فارغ التحصیل ہونیوالی آمنہ کے شاہپاروں سے محبت کے منہ زور اور والہانہ جذبوں کا اظہار ہوتا تھا اور اظہارِ ذات کے فطری رنگ نمایاں تھے، اسی طرح اس نوخیز شاعرہ کی اٹھان بڑی غیر روایتی جذبات کی عکاس تھی جس میں داخلی تجربات اور عشق و مستی کے الوہی رنگوں کی قوس و قزح میں یہ رنگ نمایاں تھے۔ اس لڑکی کو بڑا خوش قسمت سمجھا جاتا تھا، دو بیٹے ایک بیٹی، جان نچھاور کرنے والا شوہر مسعود جنجوعہ اچانک غائب ہو گیا اور رنگ و بو سے کھیلنے والی مصورہ اور کومل جذبات کو لفظوں کے پیرہن میں دینے شاعرہ کی زندگی یکسر بدل گئی۔
اب گمشدہ حرماں نصیب لوگ تھے اور آمنہ بی بی ہے۔ اس نے ہڈیوں کا گودا جما دینے والی سرد راتوں میں ’’پریڈ گراؤنڈ‘‘ میں کھلے آسمان تلے دھرنے کی رسم ڈالی تھی جسکی پیروی بعدازاں عمران خان اور طاہرالقادری نے کی تھی۔ رہے جبری گم شدہ افراد تو وائے نصیب کہ اس کالم نگار کو ذاتی طور پر ایک ’’جبری‘‘ گم شدہ نوجوان کی تلاش کے جاں جوکھوں مراحل سے گذرنا پڑا تھا جو بعدازاں وانا سے ’’برآمد‘‘ ہوا تھا جو از خود شوق جہاد سے سرشار ’’مملکت خراسان‘‘ گیا تھا۔ اس سعیدروح اور نیک بخت نوجوان نے اپنے ماموں اور والدہ کے ساتھ آنے سے صاف انکار کر دیا تو علم ہوا کہ جبری گمشدگی پر ریاستی اداروں پر الزام لگانا فیشن بن گیا ہے جبکہ اس نوجوان کے اہل خانہ کو روز اوّل سے علم تھا کہ انکے بچے کو کس نے بھجوایا تھا لیکن وہ بڑے دھڑلے سے فوج پر الزام لگاتا رہا اور حریت پسند کہلاتا رہا۔ ترکی سمیت ساری دنیا میں داد شجاعت دیتا اور دلاتا رہا۔ حرف آخر انسانی حقوق کی علم بردار اور گمشدہ افراد کے مقدمات لڑنے والی عاصمہ جہانگیر کی اچانک اور ناگہانی موت سے سارے ملک اور خاص طور بھارت میں صف ماتم برپا ہو گئی ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ مرحومہ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کے بارے میں جو رپورٹ لکھی تھی۔ اس سے ان کے بھارت کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے کی عکاسی ہوتی تھی۔ بھارت کے بارے میں ان کا ہمیشہ یہی رویہ رہا۔ اس کالم نگار سے عہد جوانی میں تعلقِ خاطر کا یہ عالم تھا کہ مل کر کش لگائیں دھواں اڑائیں بھرے مجمعوں میں ’’ڈن ہل سگریٹ‘‘ کے نقرئی پیکٹ پیش کرنیکا حکم دیتیں، یہ خاکسار بڑے مؤدب انداز میں سر جھکائے سگریٹ سلگانے کیلئے جھک جاتا کہ ان قدیم خاندانی تعلقات خراج تھا جو قدیم لاہور کے ککے زئی سردار ملک غلام جیلانی سے اگلی نسلوں کو منتقل ہو ئے تھے لیکن جب مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر انکی خاموشی پر سوالات بڑھتے گئے تو نادیدہ فاصلے طویل ہوتے گئے۔
گذشتہ مہینوں اسلام آباد پریس کلب کے ’’میٹ دی پریس‘‘ میں دھڑلے سے بعض متنازعہ امور پر خطاب کرگئیں، حیرت انگیز طور اس خاکسار کو ان کی آمد کا علم تک نہ ہو سکا۔ بعدازاں پتہ کرایا گیا تو معاملات کا علم ہوا ایک دن سرراہ مل گئیں شکوہ کیا تو کہنے لگیں ’’تینوں برداشت کرنا بڑا اوکھا اے‘‘۔ جب کبھی ملتیں ٹھیٹ پنجابی میں گپ شپ کرتیں لیکن دل کے آئینے کا بال نہ جا سکا۔ سید والا تبار اپنے شاہ جی عباس اطہر مدتوں پہلے کسی معاملے پر اتنے ناراض ہوئے کہ اپنے کالم میں لکھ دیا ’’اسے واہگہ بارڈر پر بھارتی فوجیوں سے کوکلا چھپائی کھیلنا چاہئے ۔خدا گواہ جب بڑے بڑوں نے 'تہذیب'کا مظاہرہ کرکے ہر چیز داؤ پر لگا دی تھی تو شاہ جی میدان میں آئے تھے اور پاکستان کا علم بلند کر دیا تھا۔
آج عالم یہ ہے کشمیریوں پر بھارتی فوج کے مظالم پر نوحہ کناں نظر نہ آنیوالی عاصمہ جہانگیر کی موت پر مسلمہ کشمیری اور اخبارنویسوں کے غیر متنازعہ رہنما افضل بٹ کہہ رہے ہیں۔ الوداع عاصمہ جہانگیر! انسانی حقوق، آزادی اظہار، آئین و قانون کی حکمرانی، جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام اور پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے جدوجہد کا روشن باب ختم ہوا ہم آپ کی خدمات کو فراموش نہیں کر سکتے۔عاصمہ جہانگیر کون تھی؟ وہ جب سب ’’بڑے ابو‘‘ کے خوف سے خاموش رہتے تھے اور ’’پنچائت والے تایا‘‘ سے بھی ڈر کر کوئی بات نہیں کرتا تھا تب ’’گھر کی یہ بڑی بہن‘‘ چھوٹوں کیلئے ڈٹ جاتی تھی۔ کس کس نے کیا کیا الزام نہیں لگایا پھر بھی پیچھے نہیں ہٹیں؎
مرے چارہ گرکو نوید ہو، صفِ دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا
ہمیشہ حق اور سچ کیلئے بلند ہونے والی آواز خاموش ہو گئی۔ بے باک و بہادر خاتون مظلوموں کو تنہا چھوڑ گئی۔