آپ کا اعتراض بالکل بجا ہے۔ ہمارا بھی یہی ایمان ہے کہ جو کافر ہو اس کا کریکٹر ہو ہی نہیں سکتا۔پھر بھی آپ یہ خبر جھوٹ سمجھ کر پڑھ لیں۔ بات تبھی آگے بڑھ سکے گی۔ہندوستانی اداکارہ سوشا نت سنگھ راجپوت نے پندرہ کروڑ ہندوستانی روپوںکے اشتہار میں کام کرنے کی پیشکش ٹھکرا دی۔یہ اشتہار رنگ گورا کرنے والی کریم کے بارے میں تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ ہر انسان کی جلد دوسرے سے مختلف ہوتی ہے اور بطور اداکار یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم کوئی جھوٹا پیغام لوگوں تک نہ پہنچائیں۔ لیکن اتفاق سے ایسی سچائی سے محبت ہمارے سیاستدانوں میں بالکل موجود نہیں۔ ہمارے تین بار وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ وہ اب ہر اس شخص کو اپنا گھر اور ذاتی چھت دیں گے جس کے پاس رہنے کو اپنا مکان نہیںاور وہ کرایے کے مکان میں رہنے پر مجبور ہے۔ وہ ان مکانات کے مالکانہ حقوق کے بدلے انتہائی کم رقم بطور قسط مقرر کریں گے۔ تاکہ جس طرح کوئی شخص اپنے کرائے کے مکان کا کرایہ ادا کرتا ہے، اسی طرح وہ شخص کوئی اضافی رقم ادا کئے بغیر وہی کرائے کی رقم بطور آسان قسط جمع کروا کر مکان کی ملکیت کا حقدار بن سکے۔ لیکن اے پاکستان کے بے گھر لوگو! تمہیں اس خوش خبری پر زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایسا میاں نواز شریف تبھی کر سکیں گے جب وہ چوتھی بار وزیراعظم منتخب ہوں گے۔ غالباً انہیں اپنا چوتھی بار منتخب ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں، اسی لئے وہ ایسے وعدے کئے جا رہے ہیں۔ ورنہ اپنی تینوں وزارت عظمیٰ کے ادوار میں ان کے منہ سے ایسی کوئی آوازکبھی نہیں نکلی تھی۔ اسی لئے ہم بھی اس شاعر کی طرح یہ بدگمانی رکھنے پر مجبور ہیں۔…؎
میرے محبوب نے وعدہ کیا ہے پانچویں دن کا
کسی سے سن لیا ہوگا یہ دنیا چار دن کی ہے
جڑانوالہ کے مسلم لیگی جلسہ عام میں میاں نواز شریف کے اس اعلان پر بہت سے کالم نگاروں نے خامہ فرسائی کی ہے۔ کالم نگار ہارون الرشید کے مطابق ہماری بائیس کروڑ کی آبادی میں ستر فیصد لوگ افلاس میں جیتے ہیں۔ ایک کروڑ مکانوں کی کمی ہے۔ اس دعویٰ کی تکمیل تبھی ممکن ہے جب کئی سال کیلئے اگر امریکہ اور چین اپنے تمام تر ترقیاتی فنڈ میاں شریف کے فرزند کو سونپ دیں، چار ہزار بلین ڈالر۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تمام بے گھر پاکستانیوں کی بے گھری کا علاج اتنا مشکل بھی نہیں جتنا جناب ہارون الرشید سمجھے بیٹھے ہیں۔ہماری ساری روداد محض اتنی ہے کہ ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا، ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے۔ پاکستان میں غربت اور بے گھری کی کئی وجوہات ہیں۔ اس لمبی فہرست میں بدانتظامی سے لے کر بدعنوانی تک بہت کچھ شامل ہے۔ ان میں سے ایک اہم وجہ خراب حکمرانی بھی ہے۔ خراب حکمرانی کا شکار حکومتیں ملک میں موجود وسائل کو بڑی بیدردی سے ضائع کرتی ہیں۔ وسائل کا غلط اور ناجائز استعمال کرتی رہتی ہیں۔ پھر نئے وسائل کی پیدائش یا تلاش میں ناکام بھی رہتی ہیں۔ کچھ انسانی ضرورتیں ایک انسان کا بنیادی حق ہیں۔ ان بنیادی ضروریات میں تعلیم، صحت، روٹی، کپڑا اور مکان شامل ہیں۔
سر چھپانے کیلئے ایک چھت ، خوراک اور کپڑے کی طرح ہی لازمی ہے۔ وسائل کے غلط استعمال میں وہ تمام سرکاری اداروں کی زمینوں کی انتہائی مضحکہ خیز حد تک کم قیمت پرلیز بھی شامل ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک مرتبہ لاہور سی این اے کے اجلاس میں جنرل ظہیرالاسلام عباسی آئے۔ انہوں نے بینظیر بھٹو کے دور میں مارشل لاء لگانے کی ناکام کوشش کی تھی۔ پھر انہیں سزا بھی ہوئی کہ انہوں نے بھگتی بھی۔ وہ ہمیں بتانے لگے کہ اگر میں مارشل لاء لگانے میں کامیاب ہوجاتا تو میں نے اپنی پہلی نشری تقریر میں ملک بھر میں تمام لیزیں ختم کر دینی تھیں۔ مسلم اوقاف، غیر مسلم اوقاف ، میونسپل کارپوریشن، ضلع کونسل، جنگلات، ریلوے اور ایسے تمام دیگر سرکاری اداروں کی بیش قیمت زمینیںبہت معمولی کرائے پر بااثر افراد کے قبضہ میں ہیں۔ ان پر تمام تعمیرات بحق سرکار ضبطی کا حکم نامہ جاری ہونا تھا۔ کیونکہ انہوں نے اس زمین سے بہتیرے فائدے حاصل کر لئے ہیں، تعمیرات کی مالیت سے کہیں بڑھ کر۔ اسلامی فقہ میں ایک علماء کو بھولا بسرا قانون حجر بھی موجود ہے۔ اس قانون کے تحت ریاست اپنے کسی شہری کوحلال ذرائع سے کمائے ہوئے رزق کو ایسے استعمال میں لانے سے روک سکتی ہے، جس سے دیگر شہریوں کی دلآزاری ہوتی ہو۔ یورپ کے چند ممالک میں یہ سننے میں آیا ہے کہ آپ کسی ہوٹل میں بیٹھے اپنی بھوک سے زیادہ کھانا نہیں منگوا سکتے۔ اگر آپ کا کھانا بچ رہے تو آپ کو اس کے ضیاع کا جرمانہ بھرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں تو روایتی مڈل کلاس طبقہ اس بچے کھچے کھانے کو پیک کروا کر ساتھ لے جانا بھی مناسب نہیں سمجھتا۔ رہائش کی بنیادی انسانی ضرورت کا ادراک پاکستان میں سب سے پہلے بھٹو نے کیا تھا۔ انہوں نے دیہاتوں میں بے زمین کسانوں کیلئے رہائشی پلاٹ مہیا کئے۔ گائوں میں بے زمین کسان شاملات دیہہ میں حصہ دار نہیں ہوتے۔ لیکن بھٹو کے بہت سے انسانی بہبود کے کام ادھورے رہ گئے اور ملک میں ضیاالحق کا اسلامی نظام آگیا۔ہمارے بے گھر لوگوں کے مسئلہ کے حل کیلئے ہمیں امریکہ اور برطانیہ سے چار ہزار بلین ڈالر نہیں چاہئیں۔ ہمیں اپنی بے گھری دور کرنے کیلئے کوئی زمین امپورٹ کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ہمارے پاس وافر وسائل موجود ہیں۔ صرف چند اقدامات سے یہ مسئلہ بآسانی حل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ اقدامات کون کریگا؟ پورے ملک میں ایک ہی تجارت رہ گئی ہے اور یہ پلاٹوں کی خرید و فروخت کا کاروبار ہے۔ پچھلے دنوں قائداعظم لائبریری لاہور میں تیسرے’’سٹی ڈائیلاگ‘‘ کا انعقاد ہوا۔ اس مکالمہ میں یہ مسئلہ زیر بحث تھا کہ کیسے ایک عام آدمی اپنا گھر خود بنا سکتا ہے ؟ ہم وہاں موجود نہیں تھے۔ اس خبر کے اخبارات کے حوالہ سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ سستے مکانات کی تعمیر کا معاملہ ہے ۔ گھر کچا ، مٹی اور گھاس پھونس سے بھی بن سکتا ہے۔ سب سے اہم مسئلہ رہائشی پلاٹ کا حصول ہے۔ اب تمام پرائیویٹ رہائشی سکیموں حتیٰ کہ سرکاری رہائشی سکیموں میں بھی پانچ مرلہ پلاٹ کی قیمت بیس لاکھ روپے سے شروع ہوتی ہے۔ پھر پوش علاقوں میں پانچ مرلہ پلاٹ کی قیمت ایک کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے۔ پندرہ بیس ہزار روپے ماہوار کمانے والوں کو چھوڑیں۔یہ چالیس پچاس ہزار ماہوا رکمانے والے کی دسترس سے بھی باہر ہو گئے ہیں۔ پاکستان میں اب ایک ایسے پلیٹ فارم کی اشد ضرورت ہے جہاں عوام اپنے اہم شہری مسائل پر بات چیت کر سکیں اور ان کا بہتر حل تلاش کر سکیں۔ یہ مضمون اب سیاسی جماعتوں کے نصاب سے باہر ہو چکا ہے۔ میاں نواز شریف نے بھی اپنے منہ کا ذائقہ بدلنے کیلئے ہی عام آدمیوں کی بے گھری کا قصہ چھیڑا ہے۔ ورنہ ان دنوں انہیں صرف اپنی پڑی ہوئی ہے۔