مودی سرکار کے متنازعہ شہریت بل کیخلاف بھارتی لوک سبھا میں ہنگامہ‘ پاکستان اور دوسری عالمی قیادتوں کی جانب سے مذمت
ہندو انتہاء پسندوں کی نمائندہ مودی سرکار کے لائے گئے متنازعہ شہریت بل کیخلاف بھارتی لوک سبھا بھی گزشتہ روز سراپا احتجاج بن گئی جہاں لوک سبھا کے مسلم ارکان کے علاوہ ہندو اور دیگر مذاہب کے ارکان نے بھی مودی سرکار پر بھارت کو توڑنے کے مترادف اقدامات اٹھانے کا الزام عائد کیا جبکہ امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی نے متذکرہ بل کی بنیاد پر بھارتی وزیر داخلہ اور دیگر بی جے پی رہنمائوں کیخلاف پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کردیا ہے اور امریکی جریدے بلوم برگ نے اپنی حالیہ اشاعت میں بھارت کی اصل صورتحال بے نقاب کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ بھارت پر نظریاتی جنونیوں کی حکومت ہے جس پر تنقید کرنے والوں کی ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے۔ گزشتہ روز بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) میں متنازعہ شہریت بل پر شدید ہنگامہ ہوا۔ اس موقع پر بھارتی کانگرسی رہنماء ششی تھرور نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے شہریت ترمیمی بل کی منظوری گاندھی پر قائداعظم محمدعلی جناح کی سوچ کی جیت ہے۔ انہوں نے بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ مجوزہ بل بھارتی آئین کے بنیادی اصولوں کیخلاف جاتا ہے۔ اگر یہ بل منظور ہو گیا تو گاندھی پر قائداعظم کے افکار کی جیت ہوگی۔ دوسری جانب کانگرس کے رہنماء راہول گاندھی نے کہا کہ یہ بل بھارتی آئین پر ایک حملہ ہے اور جو کوئی بھی اسکی حمایت کررہا ہے وہ قومی اساس پر حملہ کرنے اور اسے تباہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ایک دوسرے کانگرسی لیڈر ادھیر رنجن چودھری کا کہنا تھا کہ مودی حکومت بھارت کو توڑنے کا نہیں‘ جوڑنے کا کام کرے۔
لوک سبھا میں اس متنازعہ شہریت بل کی منظوری کے بعد بھارت کے مختلف شہروں میں مظاہروں اور ہنگاموں کا سلسلہ جاری ہے اور مظاہرین مودی سرکار کیخلاف زبردست نعرے بازی کررہے ہیں۔ گزشتہ روز بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں آسام‘ تریپورہ اور میگھالا میں مظاہروں کے علاوہ رات کو مشعل بردار جلوس بھی نکالے گئے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق بھارتی طلبہ کی جانب سے بھی متنازعہ شہریت بل کو مسترد کر دیا گیا ہے اور آل موران طلبہ یونین نے 48 گھنٹے کی ہڑتال کی کال دے دی ہے۔ اسی طرح مظاہروں کے دوران سڑکوں پر گاڑیوں کے ٹائر جلتے نظرآرہے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس بل کے ذریعے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے گزشتہ روز اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ ہم لوک سبھا میں متنازعہ شہریت سے متعلق قانون سازی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ اس بل کا منظور کیا جانا انسانی حقوق کے تمام قوانین اور پاکستان کے ساتھ دوطرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔ انکے بقول یہ توسیع پسندی دراصل آرایس ایس کے ہندو راشٹرا ڈیزائن کا ایک حصہ ہے جسے فاشسٹ مودی سرکار کے پراپیگنڈہ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اسی حوالے سے گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی ڈاکٹر شیریں مزاری کی پیش کردہ ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی جس میں مودی سرکار سے متذکرہ متنازعہ بل واپس لینے کا تقاضا کرتے ہوئے کہا گیا کہ بھارتی حکومت کا یہ اقدام انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی گزشتہ روز لوک سبھا سے منظور کرائے گئے متذکرہ بل کا نوٹس لیا گیا اور قرار دیا گیا کہ بھارت کے ایسے اقدامات نے اس کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔ اس بل کے حوالے سے دفتر خارجہ پاکستان کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ قانون سازی ہندو راشٹرا کے تصور کو عملی شکل دینے کی طرف ایک بڑا قدم ہے جو مذہب کی بنیاد پر ہمسایہ ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا واضح اظہار ہے جسے ہم قطعی طور پر مسترد کرتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہندو انتہاء پسندوں کی نمائندہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی مودی سرکار نے مسلمانوں اور دوسری بھارتی اقلیتوں کیخلاف انتہاء پسندانہ پالیسیاں اختیار کرکے اور متشدد سوچ کو فروغ دیکر بھارت کا سیکولر چہرہ داغدار کیا ہے اور اسے ہندو انتہاء پسند ریاست کی جانب دھکیلا ہے۔ بی جے پی کے پہلے دور حکومت میں بابری مسجد گرائی گئی اور اسکی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا اعلان کیا گیا اور پھر بی جے پی حکومت نے پاکستان کے ساتھ دشمنی بھی انتہاء کو پہنچائی جبکہ بی جے پی کی مودی سرکار نے تو پاکستان کی سلامتی تاراج کرنا اپنے ایجنڈے کا حصہ بنایا جس نے بھارتی لوک سبھا کے انتخابات میں کامیابی بھی پاکستان اور مسلم دشمنی کے جذبات بھڑکا کر حاصل کی تھی۔ مودی خود پاکستان اور مسلم دشمنی میں انتہاء درجے کو پہنچے ہوئے ہیں جنہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد مکتی باہنی کی پاکستان توڑو تحریک میں عملاً حصہ لینے کا فخریہ اظہار کیا اور پھر اپنے اقتدار کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف اقدامات اٹھانے پر فوکس کرلیا۔ اسی تناظر میں انہوں نے کنٹرول لائن پر سرحدی کشیدگی بڑھائی اور مقبوضہ کشمیر میں کشمیری نوجوانوں‘ خواتین اور بچوں پر مظالم کا نیا سلسلہ شروع کرایا جس میں اسرائیلی ساختہ پیلٹ گنوں کا استعمال کرکے کشمیری نوجوانوں کو اندھا اور اپاہج بنایا جانے لگا جبکہ پاکستان پر دہشت گردی اور دراندازی کے الزامات لگا کر مودی سرکار نے اسکے ساتھ کسی بھی سطح کے دوطرفہ مذاکرات کے دروازے بند کر دیئے۔
مقبوضہ وادی کو مستقل طور پر ہڑپ کرنا مودی سرکار کے ایجنڈے میں سرفہرست تھا جس کیلئے کشمیریوں کا عرصۂ حیات تنگ کیا گیا اور ان کا ساتھ دینے سے روکنے کیلئے پاکستان کو عالمی تنہائی سے دوچار کرنے کی سازشیں کی گئیں۔ اس مقصد کے تحت ہی مودی سرکار نے پلوامہ حملے کا ڈرامہ رچایا جس کا پاکستان پر ملبہ ڈال کر اس نے جنگی جنون کو فروغ دینا شروع کر دیا جبکہ مودی سرکار کا خبث باطن پاکستان سے منسلک آزاد کشمیر اور اسکے شمالی علاقہ جات کو بھی ہڑپ کرنے کی بدنیتی تک جا پہنچا۔ مودی سرکار نے اپنا دوسرا الیکشن بھی پاکستان اور مسلم دشمنی کے ایجنڈے کے تحت جیتا جس کے بعد اس نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کی منصوبہ بندی کے تحت 5؍ اگست کو بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35اے کو آئین سے نکالنے کا ہتھوڑا برسایا اور کشمیریوں کا احتجاج روکنے کیلئے پوری مقبوضہ وادی کو کرفیو میں جکڑ دیا۔ یہ ظالمانہ کرفیو 129دن سے جاری ہے جس کے دوران کشمیری عوام عملاً زندہ درگور ہوئے ہیں جبکہ بیرونی دنیا سے ان کا رابطہ مکمل طور پر منقطع ہے۔ مودی سرکار کی اس بربریت کیخلاف اقوام متحدہ‘ او آئی سی‘ یورپی یونین‘ برطانوی پارلیمنٹ‘ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کے دوسرے عالمی اور علاقائی نمائندہ اداروں اور کم و بیش تمام عالمی قیادتوں کی جانب سے نوٹس لیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور دوسری پابندیاں اٹھانے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرنے کا تقاضا کیا گیا جبکہ امریکی صدر ٹرمپ اور متعدد دوسری عالمی قیادتوں کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالثی کی پیشکش بھی کی گئی مگر بگڑی ہوئی مودی سرکار کسی عالمی اپیل اور دبائو پر ٹس سے مس نہیں ہوئی اور اس نے مقبوضہ وادی کی ہیئت تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کو بھی عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا جس کے تحت وہاں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے اور ہندو اقلیت کو اکثریت بنا کر غالب کرنے کیلئے قانون سازی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ اب دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مودی سرکار نے لوک سبھا سے شہریت کے قانون میں ترمیم کا بل منظور کراکے مسلمانوں کیلئے بھارتی شہریت کے حصول کے دروازے بند کرنے کی سازش کی ہے جبکہ پاکستان کی اقلیتوں سمیت غیرمسلموں کو بھارتی شہریت حاصل کرنے کی کھلی دعوت دے دی گئی ہے جو پاکستان کی اقلیتوں کو پاکستان سے بدگمان کرنے کی بھی گھنائونی سازش ہے اور اقوام عالم کو یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں۔
اس بل کے ذریعے لامحالہ بھارت کا سیکولر ریاست کا تشخص ختم ہوگا اور ہندو انتہاء پسند ریاست کا تصور ابھر کر سامنے آئیگا جس سے ہندو انتہاء پسندوں اور انکی نمائندہ مودی سرکار کے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو مستقل خطرہ لاحق ہو جائیگا۔ اسی تناظر میں اقوام عالم کی جانب سے مودی سرکار کے انتہاء پسندی پر مبنی اقدامات کیخلاف تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے جبکہ بھارت کے اندر سے بھی مودی سرکار کی انتہاء پسندی کیخلاف مضبوط آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ گزشتہ روز کشمیریوں نے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر دنیا بھر میں مودی سرکار کیخلاف مظاہرے کرکے اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر منایا اور صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان نے عالمی برادری سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم رکوانے کا تقاضا کیا۔
بے شک عالمی قیادتوں اور نمائندہ اداروں کی جانب سے مودی سرکار پر دبائو ڈالنے کا سلسلہ جاری ہے مگر بھارت کسی کا بھی دبائو قبول نہیں کررہا تو اب محض رسمی احتجاج اور زبانی کلامی تشویش کا اظہار کرنے سے آگے نکل کر عملی اقدامات کے ذریعے بھارت کے جنونی ہاتھ روکنے کی ضرورت ہے۔ اگر عالمی قیادتیں یکسو ہو کر اقوام متحدہ اور دوسرے نمائندہ عالمی فورموں پر بھارت کیخلاف ٹھوس اقدامات کا فیصلہ کریں اور اسکے اقتصادی مقاطعہ کے اقدامات اٹھائے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہندو بنیاء راہ راست پر نہ آئے۔ آج مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے لوہا گرم ہے تو اس موقع کو ہرگز ضائع نہیں جانے دینا چاہیے۔ یہ امر واقع ہے کہ مسئلہ کشمیر کا یواین قراردادوں کے مطابق حل ہی عالمی اور علاقائی امن و سلامتی کی ضمانت ہے جس کا علاقائی اور عالمی سلامتی کیلئے فکرمند عالمی قیادتوں کو بہرصورت ادراک ہونا چاہیے۔