وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں، وزیراعظم نے سزا یافتہ اور مفرور افراد کے میڈیا بیانات کے تدارک کے لئے پیمرا سمیت تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے ساتھ لائحہ عمل بنانے کے لئے وزیر قانون و انصاف کو خصوصی ہدایات دی ہیں۔ کابینہ نے میڈیا کے بعض حلقوں کی جانب اشتہاری ملزمان اور سزا یافتہ افراد کے بیانات چلائے جانے اور قانون کو مطلوب ایسے افراد کو غیر ضروری پروجیکشن دینے کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مہذب معاشروں میں کہیں بھی ملزمان اور خصوصاً ایسے ملزمان جن پر قومی خزانے کو اربوں روپے نقصان پہنچانے کا الزام ہو یا سزا یافتہ ہوں‘کو میڈیا کا استعمال کرنے کی بھی اجازت نہیں ملتی۔
کابینہ اجلاس میں سزا یافتہ افراد کو میڈیا سے دور رکھنے کی سوچ بادی النظر میںآمرانہ ہے، اس سے آزادی صحافت پر قدغن لگنے کا بھی تاثر پیدا ہو گا۔ پھر جن کا ٹرائل ہو رہا ہے۔ میڈیا کو کیسے کوریج سے روکا جا سکتا ہے۔ میڈیا ہی عوام الناس کو حالات سے باخبر رکھتا ہے۔ اس معاملے کا یہ پہلو بھی پیش نظر رہے۔ کہ جنہیں راڈار سے غائب کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں، وہ سوشل میڈیا کی فعالیت کے اس دور میں معاشرے میں سب سے زیادہ ڈسکس کئے جانے لگیں گے۔ ادھر اُنہیں قومی مجرم قرار دیا جا رہا ہو گا۔ تو دوسری طرف وہ مظلوم اور ہیرو کی صورت میں عوام میں زیادہ مقبول ہو جائیں گے۔ عوام کی زیادہ ہمدردیاں حاصل کر لیں گے۔ اور یہ تاثر بھی پیدا ہو گا، کہ، حکوت ان سے خائف ہے۔ میڈیا پہلے بھی ’’چوروں اور ڈاکوؤں‘‘ کو قومی ہیرو بنا کر پیش نہیں کر رہا اور قومی مفادات کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے مکمل آگاہ ہے۔ میڈیا پر کسی قسم کی قدغن جمہوریت کی روح کے بھی خلاف ہوتی ہے جبکہ آئین نے میڈیا کو اظہار رائے کی آزادی کا حق دیا ہوا ہے۔ میڈیا نے یہ حق بھی کٹھن جدوجہد سے اور قربانیاں دیکر حاصل کیا ہے جسے سلب کرنے کی کسی بھی سوچ کی بہرصورت تائید نہیں کی جاسکتی۔ حکومت اس حوالے سے کوئی قانون سازی کرنا چاہتی ہے یا کوئی دوسرا اقدام اٹھانا چاہتی ہے تو اسکے مضمرات کا بھی اسے ادراک ہونا چاہیے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024