جمعرات ‘ 14 ؍ربیع الثانی 1441ھ ‘ 12 ؍ دسمبر 2019ء
3 بھائیوں سمیت گوجرانوالہ کے 5 پہلوانوں نے ایشین گیمز میں سونے کے تمغے جیتے
جو لوگ گوجرانوالہ صرف چڑے کھانے کے لیے جاتے ہیں انہیں شاید معلوم ہو گا کہ یہ خوش خوراک ہونے کے ساتھ ساتھ فن پہلوانی میں زور آوروں کا شہر بھی کہلاتا ہے۔ ماضی میں بڑے بڑے نامور پہلوانوں کا تعلق بھی اس شہر سے تھا۔ پھر دیسی فن پہلوانی کو زوال آیا تو ملک میں دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی پہلوانی دھری کی دھری رہ گئی۔ صرف سیاسی پہلوان ہی سیاسی اکھاڑے میں زور آزمانی کرتے نظر آنے لگے۔ ان برے حالات میں بھی لاہور اور گوجرانوالہ کے پہلوان کسمپرسی کے باوجود سرکاری سرپرستی نہ ہونے پر بھی سال میں ایک دو بار جوڑ کیلئے میں اترتے اور فخر پنجاب شیر پنجاب یا رستم پاکستان کا ٹائٹل جیتنے کے لیے خوبصورت دائو پیچ دکھاتے ہیں۔ آفرین ہے ان مقامی کلبوں پر جہاں آج بھی ان پہلوانوں کی سرپرستی ہوتی ہے۔ یہ انہی کا کمال ہے کہ شہ زورں کے شہر گوجرانوالہ کے تربیت یافتہ 5 پہلوانوں نے جن میں دو بھائی بھی شامل ہیں ایشین گیمز میں سونے کے میڈل حاصل کر کے قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ اب یہ ہماری حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دم توڑتے فن پہلوانی پر خاص توجہ دے اور ہمارے نوجوانوں کو تن آسانی کی بجائے زور آزمائی کی طرف راغب کرے۔ پورے پنجاب میں دیسی کشتی اور جدید ریسلنگ کے تربیتی مراکز کھولے تاکہ آئندہ کسی بھی عالمی مقابلے میں پاکستانی پہلوان مزید کامیابیاں حاصل کریں۔ یہ کام حکومتی سرپرستی کے بنا ممکن نہیں۔ خواب خرگوش میں ہے۔ اسے چھیڑنا مناسب نہیں۔
٭…٭…٭
تحریک انصاف میں عمران کے سوا کوئی لیڈر نہیں جو وزیراعظم بن سکے۔شیخ رشید
یہ عمران خان کو خوش کرنے کی کوشش ہے یا کچھ اور۔ خداجانے تحریک انصاف کے بڑے بڑے قد آور رہنماؤں کیخلاف ایسے الٹے سیدھے بیانات دینے کا ٹھیکہ شیخ جی کو کہاں سے ملا ہے۔ یا پھر وہ خود کو عمران خان کے بعد وزیراعظم بننے کیلئے موزوں سمجھتے ہیں۔ یہ تو بعد کی بات ہے پہلے ان سے کوئی یہ تو پوچھے کہ انہیں ’’عمران خان کے بعد‘‘ کا خیال کیوں آ گیا کہیں یہ خیال کسی اور طرف سے ان کے دماغ میں ڈالا تو نہیں گیا۔ خان صاحب صحت مند اور چاق و چوبند ہیں۔ ان کی جماعت میں ایک سے بڑھ کر ایک اعلیٰ دماغ زیرک سیاستدان بھی موجود ہیں۔ جو بہرحال شیخ جی سے زیادہ عالم بھی ہیں اور تجربہ کار بھی۔ شیخ جی ایک تو زبردستی کے کوٹے پر مہمان اداکار کی طرح تحریک انصاف کی حکومت میں وزیر ہیں اوپر سے دیگر بڑے لیڈروں کو مشکوک بنا رہے ہیں۔یہ تو ان وزرا کی شرافت ہے کہ شیخ جی کو اپنے کام سے کام رکھنے کا نہیں کہہ رہے۔ ورنہ وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری چھوڑیں اپنی اور اپنی وزارت کی فکر کریں جہاں آئے روز بدترین حادثات میں کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے اور قیمتی انسان جانیں ضائع ہوتی ہے۔ اگر کوئی یورپی ملک ہوتا تو اب تک وزیر ریلوے مستعفی ہو چکا ہوتا مگر آپ ہیں کہ چپکے ہوئے ہیں۔ دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی مناسب نہیں ہوتی۔ اسلئے یا شیخ اپنی اپنی دیکھ۔ انہیں پوری توجہ وزارت ریلوے پر دینی چاہیے جو ایک مرتبہ پھر حاجی بلور کے دور کا نقشہ پیش کرنے لگی ہے۔ شوشا والی چند ٹرینوں کو چھوڑ کر باقی عوامی ٹرنیوں کی حالت بد سے بدتر ہو چکی ہے۔ نہ بتی ہے نہ کھڑکیوں میں شیشہ، نہ واش رومز میں پانی کی ٹوئٹی، سیٹیں ادھڑی ہوئی۔ کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ آمد اور روانگی کا شیڈول بھی بگڑ گیا ہے۔ تاخیر عام ہے۔ بہتر یہی ہے کہ شیخ جی ریلوے پر توجہ دیں باقی بکھیڑوں میں نہ پڑیں۔
٭…٭…٭
شہر سے چڑیاں غائب اب تو چیل اور کوئے نظر آتے ہیں‘ لاہور ہائی کورٹ
فاضل عدالت کا ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے تشویش کا اظہار بالکل بجا ہے۔ جب تعمیر کے نام پر تحزیب کا عمل دہرایا جائے گا۔ سبزہ کاٹا اور درخت اکھاڑے جائیں گے تو پھول اور گھاس کہاں ملے گی۔ چڑیاں طوطے کوئل، بلبل، مینا اور دوسرے سریلے پرندے کہاں بسیرا کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سب غائب ہو گئے ہیں اب تو پورے شہر میں صرف صدقے کے گوشت پر پلنے والی چپلیں اور کوے ہی منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ چہچہانے والے پرندے نجانے کہاں کوچ کر گئے ہیں۔ یہ اس شہر کا حال ہے جسے باغوں کا شہر کہتے تھے۔ جو اب تو نرا کنکریٹ کا جنگل بن چکا ہے۔ ہر حکومت کاٹے گئے درخت یا اکھاڑے گئے درخت دوبارہ لگانے کے دعوے کرتی ہے۔ بلین ٹریلیں درخت لگانے کے اعلانات ہوئے ہیں۔ مگر عملی میدان میں کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ آخر یہ لاکھوں کروڑوں درخت جاتے کہاں ہیں۔ ذرا تلاشی لیں توشاید یہ منصوبہ سازوں کی جیب سے برآمد ہو سکتے ہیں۔ عالمی ماحولیاتی اداروں کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ٹاپ ٹین ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔ اس سے ہماری بدحالی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مگر کسی کو پرواہ نہیں۔ کاغذی منصوبوں سے دل بہلایا جا رہا ہے۔ اب بھی اگر کچھ نہ کیا گیاتو بہت جلد ہمارا یہ سرسبز شاداب ملک، ایتھوپیا، سوڈان، یوگنڈا اور افغانستان بنا نظر آئے گا۔ اوریہ ایک بہت بڑا المیہ ہو گا۔
٭…٭…٭
آصف زرداری کا دماغ سکڑ گیا‘ ایم آر آئی ٹیسٹ میں انکشاف
میاں نوازشریف کے بعد جناب آصف زرداری کی ضمانت کی خبر بھی پیپلزپارٹی والوں کے لئے ایک خوشخبری ہے۔ امید بندھ رہی ہے کہ وہ بھی کسی وقت علاج کے لئے باہر جا سکتے ہیں۔ تاہم بیماری کے حوالے سے پریشان کن بات یہ ہے کہ دونوں رہنماؤں کو دماغی عارضہ لاحق ہے۔ میاں صاحب کو دماغ کو خون سپلائی کرنے والی شریانیں بند ہونے کا مسئلہ درپیش ہے تو آصف زرداری کو دماغ کے سکڑنے کا مسئلہ ہے۔ یہ دونوں خطرناک بیماریاں ہیں۔ خاص طور پر سیاستدانوں کے لئے تو یہ اچھی علامت نہیں۔ کل کوئی بھی ان کی دماغی صلاحیتوںپر اعتراض کر کے انہیں اہم عہدے کے لئے ناموزوں قرا ر دے سکتا ہے۔ اسلئے حکومت بھی اس بات پر توجہ دے اور انہیں مکمل علاج کے لئے ہر ممکن سہولتیں فراہم کرے۔ رہی حساب کتاب کی بات تو یار زندہ صحبت باقی۔ بیماری کی حالت کے باعث مریض کچھ بھی بھول سکتا ہے۔ حکومت پھر کہاں سے غیر ملکی اکاؤنٹس اور جائیدادوں کا پتہ لگا پائے گی جس کی وجہ سے وہ ان لوگوں کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ اسلئے پچھتاوے سے بہتر ہے کہ حکومت وصولیوں کی امید پر ان مریض قیدیوں کو علاج کی رعایت دے۔ جب تک یہ صحت یاب نہیں ہوتے اس وقت تک حکومت باقی گرفتار شدگان سے وصولیوں پر توجہ دے اور اپنا مطلوبہ ہدف حاصل کرنے کی کوشش کرے جسکی دور دور تک کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔ کیونکہ ہمارے ہاں لوگ ’’چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے‘‘ پر کامل یقین رکھتے ہیں۔