معیشت کی بحیثیت مجموعی کارکردگی کا مطالعہ کلی معیشت (Macro Economic) کہلاتا ہے۔ کسی بھی ملک کی مجموعی قومی آمدنی کا حجم مجموعی سرمایہ کاری، مجموعی بچتیں کل برآمدات اور درآمدات کی شرح، اور مالیاتی پالیسی کے تمام میزانیے سالانہ اکاؤنٹ بیلنس، توازن تجارت اور ادائیگکوں کی شرح اور مالیاتی پالیسی کے تمام میزانیے سالانہ بجٹ قومی ٹیکسوں کے حجم، اور وصولیوں کی شرح کے علاوہ افراط زر اور شرح سود کا تعین میکرو اکنامک انڈیکٹرز یعنی کلی معاشی اشاریے کہلاتے ہیں۔ تحریک انصاف حکومت کے پہلے پندرہ ماہ میں ہر معاشی اشاریے بری طرح بگڑے۔ جس کی وجہ سے روپے کی قدر میں 35 فیصد تک کمی ہوئی۔ آئی ایم ایف پروگرام سے فوری استفادہ نہ کرنے پر ملکی معاشی صورتحال غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوئی جسکی وجہ سے پاکستان سٹاک ایکسچینج تقریباً 20ہزار پوائنٹس نیچے آ گئی۔ ہنگامی طور پر سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات سے 8 سے 10 ارب ڈالرز کے قرضے حاصل کیے گئے۔ پھر عمران خان نے اپنی معاشی ٹیم کو بدلا۔ آج اگر ہم پندرہ ماہ حکومت کی معاشی کارکردگی کے اشاریوں پر نظر دوڑائیں تو صورتحال کافی حد تک بہتری کی طرف گامزن ہے۔ آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکج نے پاکستان کیلئے دوسرے مالیاتی اداروں کے ساتھ معاشی امدادی پیکیجز کا حصول آسان بنا دیا۔ جہاں پاکستان کو آئی ایم ایف نے امداد کی دوسری قسط بھی ادا کی ہیں۔ پاکستان کو ورلڈ بنک ایشیائی ترقیاتی بنک سے بھی مالی امداد مل گئی جسکی وجہ سے نہ صرف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں استحکام آیا اور 2019ء میں اِن کا حجم 15 ارب 95 کروڑ ڈالرز 54 لاکھ تک پہنچ گیا ہے۔ 27 نومبر تک سٹیٹ بنک کے پاس 9 ارب 9 کروڑ 27 لاکھ ڈالرز اور قومی بنکوں کے پاس 6 ارب 86 کروڑ 27 لاکھ ڈالرز موجود ہیں۔جنوری 2020ء میں حکومت 300 ارب روپے کے سکوک بانڈز کا اجراء کر رہی ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر مزید مستحکم ہو جائیں گے۔ وزیرخزانہ حفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ ہماری معیشت مستحکم ہو گئی ہے جس کا عالمی سطح پر اعتراف کیا جا رہا ہے۔ پورٹ فولیو سرمایہ کاری ایک ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ برس کرنٹ اکائونٹ خسارہ بہت زیادہ تھا جس کی بڑی وجہ کیپیٹل اکائونٹ بیلنس کا عدم توازن تھا۔ یہ عدم توازن مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں بجلی کے بڑے بڑے منصوبوں کیلئے باہر سے صنعتی مشینری اور خام مال کی درآمدات کی وجہ سے یہ خسارہ تقریباً16ارب ڈالرز تک جا پہنچا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے کرنسی کی قدر کو کم کیا اور ملک میں درآمدات کی حوصلہ شکنی کی وجہ سے 15 ماہ میں توازن ادائیگیوں کے کرنٹ اکائونٹ خسارہ مثبت ہو گیا ہے اور 10فیصد تک ملکی برآمدات بھی بڑھی ہیں۔ تجارتی خسارہ کم ہو رہا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ بھی دن بدن مستحکم ہو رہا ہے۔ گزشتہ دو ماہ میں روپے کی قدر میں 5روپے تک اضافہ ہو چکا ہے۔ تمام عالمی ادارے پاکستان کی معاشی کارکردگی کو سراہا رہے ہیں۔ توقع ہے کہ آئندہ معاشی صورتحال مزید بہتر ہو جائیگی۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے ترقیاتی امداد کے حجم میں 3 ارب ڈالرز کا اضافہ کیا ہے۔ پاکستان میں براہ راست سرمایہ کاری میں236 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کی سٹاک ایکسچینج 40 ہزار پوائنٹ سے تجاوز کر گئی ہے۔
حال ہی میں بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز کی طرف سے جاری ہونیوالی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرمایہ کاری کیلئے پاکستان بھارت سے بہتر ملک ہے۔ حکومت پاکستان نے بین الاقوامی ادائیگیوں کی صورتحال بہتر کی ہے۔ مثبت اقدامات کی بدولت معاشی صورتحال میں بہتری کے آثار نمایاں ہیں اگرچہ موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ بی تھری (B-3) برقرار رکھی ہے تا ہم پہلے آئوٹ لک منفی تھی جسے اب مستحکم قرار دیا گیا۔پاکستان کے رواں اور آئندہ مالی سال کے دوران کرنٹ اکائونٹ خسارہ میں تقریباً 2.2 فیصد کمی کا امکان ہے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارے میں بہتری اس وجہ سے بھی آئیگی کہ بجلی کے جاری منصوبوں کی تکمیل سے بھی درآمدات میں کمی آئیگی۔ بجلی کی پیداوار میں ڈیزل کی بجائے کوئلہ‘ قدرتی گیس کے استعمال اور پن بجلی کی پیداوار میں ڈیزل کی بجائے کوئلہ‘ قدرتی گیس کے استعمال اور پن بجلی کے استعمال سے بتدریج تیل کی درآمدات بھی کم ہونگی جس کی وجہ سے کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی آئیگی۔ موڈ یز کے مطابق 2019-20ء کے مالی سال میں مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 8.6 فیصد کے لگ بھگ رہے گا جو گزشتہ سال 89فیصد تھا اور یہ 2021-23ء تک 7فیصد تک کم ہو سکتا ہے۔ موڈیز کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط کے باعث حکومت کیلئے ریونیو کا ہدف حاصل کرنا ایک چیلنج ہو گا۔ جس کی وجہ سے اس مالی سال کے اختتام تک پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو پچھلے مالی سال کے 3.3 فیصد کے مقابلے میں2.9 فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔ تحریک انصاف حکومت نے اخراجات کو منظم کرنے کیلئے نیا پبلک فنانشنل مینجمنٹ ایکٹ متعارف کرایا ہے جس کا مقصد بجٹ کے شعبہ میں نظم و ضبط پیدا کرنا ہے۔ اس وقت حکومتی قرض جی ڈی پی کے 82 سے 83 فیصد کے لگ بھگ جو 2023ء تک تقریباً 75فیصد تک کم ہونے کا امکان ہے۔ موڈیز کی طرف سے پاکستان کی ریٹنگ کو مثبت کرنے کی خبروں کے بعد عالمی جریدے بلوم برگ نے پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کے 100 انڈیکس کو گزشتہ 3ماہ بہتر کارکردگی کی بنا پر بہترین انڈیکس کا خطاب دیا ہے۔ بلوم برگ کے مطابق گزشتہ تین ماہ میں 100KSE انڈیکس میں 36 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ سرمایہ کاری کی مالیت میں کھربوں روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت کے ایس ای انڈیکس 40 ہزار کی نفسیاتی حد عبور کر چکا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق سٹاک ایکسچینج میں بہتری کی بڑی وجہ سٹاک مارکیٹ میں چینی کمپنیوں کی سرمایہ کاری ہے۔معاشی ماہرین کیمطابق پاکستانی سٹاک مارکیٹ اس وقت دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ یہاں منافع کی شرح دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ عالمی و مقامی سرمایہ کاروں کیلئے پرکشش جگہ بنی ہوئی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے ملکی معیشت میں استحکام کو اپنی معاشی ٹیم کی اہم کامیابی قرار دیا ہے مگر عام آدمی کے نزدیک معاشی استحکام کا مطلب مہنگائی اور بیروزگاری کے عفریت پر قابو پانا ہے۔ عام آدمی کیلئے معاشی استحکام یہ ہے کہ اسے کھانے پینے‘ پہننے اوڑھنے‘ بجلی‘ گیس صحت‘ ٹرانسپورٹ کم قیمت پر ملے مگر بدقسمتی سے میکرو اکنامک کے استحکام‘ مائیکرو سطح پر نظر نہیں آرہا ہے جس کی وجہ بہتر گورننس کا فقدان ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی ہول سیل اور پرچون قیمتوں میں واضح فرق کا فائدہ مڈل مین کو پہنچتا ہے۔ حکومتی انتظامیہ اپنی مؤثر حکمت عملی سے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف مؤثر کارروائی کرکے کھانے پینے کی ااشیاء میں مؤثر کمی لا سکتی ہے مگر اب تو یہ حال ہے کہ وزیراعظم عمران خان بڑھتی ہوئی دوائوں کی قیمتیںکم کرنے کے احکامات جاری کرتے ہیں مگر دواساز کمپنیوں نے اسکی پروا کئے بغیر جان بچانے والی دوائوں سمیت تمام ادویہ کی قیمتیں 200 سے 400 فیصد تک بڑھا دیں حالانکہ سرکاری حد 15 فیصد رکھی گئی تھی۔ پاکستان بیورو آف شماریات کے اعدادوشمارکے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں 19.40 فیصد اضافہ ہوا۔ غریب ترین آبادی کو متاثر کرنے والی قیمتوں کے حساس اشاریے (SPT) کی شرح میں 15.45 فیصد ا‘ضافہ ہوا ہے۔ عام آدمی کے استعمال کی 153 اشیاء میں سے 32 کی قیمتوں میں 10 سے لیکر 389 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ نومبر 2018ء سے لیکر نومبر 2019ء تک ٹماٹر کی قیمت میں 398 فیصد‘ پیاز 166 فیصد‘ لہسن 121 فیصد‘ گیس 69.75 فیصد‘ چینی 32 فیصد‘ 46.435 فیصد‘ گندم 16 فیصد‘ آٹا 17فیصد مہنگا ہوئے ہیں۔ ان حالات میں حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ عام آدمی کی ضروریات زندگی کم قیمت پر دستیاب ہوں۔ انہیں روزگار کی مناسب سطح حاصل ہو۔
گورنر سٹیٹ بنک باقر رضا کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجوہات دور کرنے کیلئے حکومت کو ایسے اقدامات کرنا چاہئیں جس سے ساختی رکاوٹیں دورہوں۔ کاروبار میں آسانی پیدا ہو تاکہ نجی ملازمتوں کے مواقع بڑھنے کے احکامات پیدا ہوں۔ علاوہ ازیں ذخیرہ اندوزی کی روک تھام کرنے‘ غذائی رسد میں تعطل کرنے سے عام آدمی کے مسائل گھٹانے میں یقینا مدد ملے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مؤثر حکومتی مشینری ایسے تدابیری اقدامات اٹھائے جس سے عام آدمی کی زندگی میں بہتری آئے۔ احساس کارڈز کے اجراء سے ہو سکتا ہے کم آمدنی والے افراد کی مشکلات کسی حد تک کم ہو جائیں۔ وزیرخزانہ حفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت مائیکرو فنانس میں کاروباری لاگت کوکم کرنے کیلئے جامع اقدامات کر رہی ہے۔ مائیکرو فنانس سے عام لوگوں کی پیداواری صلاحیت بڑھے گی۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو فروغ دینے کیلئے آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی ضروری ہے۔ وزیرخزانہ کی بات صائب ہے مگر اس کیلئے سٹیٹ بنک کو شرح سود کو کم کرنا ہوگا تاکہ نجی شعبے کو مناسب بنک ریٹ پر قرضہ دستیاب ہو۔ آج ڈسکائونٹ ریٹ 13.25 فیصد ہے اور اس میں کمرشل بنک اپنے چارجز شامل کر کرکے 18 فیصد زائد شرح پر قرضے دے رہے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ مہنگی بجلی‘ گیس‘ کرائے‘ ٹرانسپورٹ کے اخراجات اور مہنگی لیبر اور خام مال پر کوئی بھی کاروباری شخص کاروبار کر سکے اور قرض واپس بھی کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ کاروباری سرگرمیاں زیادہ پھل پھول نہیں m.d9 اور کاروباری منصوبے اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے عمران حکومت کی معاشی ٹیم کی محنت کہیں رائیگاں نہ چلی جائے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024