آج کا کالم میں قلم سے نہیں کیلکولیٹر سے لکھ رہا ہوں، ہم بہت بڑے مغالطے کا شکار ہیں۔ ہم نے فرض کر لیا ہے کہ کشمیر پر بھارتی مظالم کا سلسلہ پانچ اگست دو ہزار انیس کو شروع ہوا۔ اس لحاظ سے ہم دنوں کی گنتی کرتے ہیں اور کشمیریوں کا نوحہ پڑھتے ہیں۔
حقیقت میں بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ سترہ اگست انیس سو سینتالیس کو اس وقت کیا تھا جب ریڈ کلف نے سرحد کا تعین کرتے ہوئے ڈنڈی ماری اور پٹھان کوٹ بھارت کو دے دیا۔
سرحد کا تعین انگریز نے کرنا تھا اور وہ اپنا کام کر کے رخصت ہو گیا۔
تو صاحبو! آج بارہ دسمبر دو ہزار انیس ہے اور کشمیر پر بھارتی قبضے کو آج 26,415 روز ہو چکے ہیں، ہم اگر حساب کتاب میں کمزور ہیں تو یہ مسئلہ آج سے نہیں، متحدہ ہندوستان کے زمانے سے ہے جب ہندوبنیا حساب میں تیز تھا اور ساری دکانداری ، بزنس اور صنعت اسی کے کنٹرول میں تھی۔ اسی کمزور حساب کی وجہ سے ہم سمجھ رہے ہیں کہ کشمیر پر بھارتی مظالم کو آج صرف 130 دن ہی گزرے ہیں۔ یہ حساب ایک لحاظ سے درست بھی ہے مگر بنیا بڑا مکار عیار اور ہوشیار ہے ، اس نے سترہ اگست انیس سو سینتالیس کے بجائے ہمیں پانچ اگست دو ہزار انیس کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے ۔ جب ہم دنیا میں شور مچاتے ہیں کہ بھارت نے 130 دنوںسے کشمیر میں ظلم و استبداد کے پہاڑ توڑنے کا سلسلہ شروع کیا ہے تو ہم دوسرے سانس میںدنیا کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ نہیں جی ! بھارت نے تو بہتر برس قبل کشمیر کو غلامی کی زنجیر میں جکڑ لیا تھا۔ ہم اس عرصے کو تاریخ سے منہا کر کے صرف پانچ ماہ تک سکڑ گئے ہیں۔
میری مئودبانہ اپیل ہے کہ ہمیں اپنا حساب درست کر لینا چاہئے تا کہ ہم بھارت کے ایک ایک ظلم کا شمار کر کے دنیا کے سامنے ایک لہو رنگ تصویر رکھ سکیں۔
ہم حساب کتاب میں ایک اورجگہ بھی مار کھا رہے ہیں۔ ہم اسی لاکھ کشمیریوں کا رونا روتے ہیں۔ اور بھارت میں رہ جانے والے تیس کروڑ مسلمانوں کو حساب کے فارمولے سے نکال دیتے ہیں۔ اور جن تیس کروڑ بنگالی مسلمانوں کو ہم نے کاٹ کر خلیج بنگال کی نذر کر دیا تھا، ہم انہیں بھی کسی کھاتے میں نہیں گنتے۔ ہمیں صرف اسی لاکھ کشمیری یاد آتے ہیں۔ نہ تیس کروڑ بھارتی مسلمان اور نہ تیس کروڑ بنگالی مسلمان۔ یہ بھی ہمیں بھارتی پارلیمنٹ نے ابھی کل ہی ایک بل منظور کر کے یاد دلایا ہے کہ قائد اعظم کا دو قومی نظریہ درست تھا۔ آج کوئی بھی بھارتی مسلمان بی جے پی کی پا لیسیوں پر احتجاج کرتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ تم پاکستان کیوں نہیں چلے جاتے۔ اور اسدالدین اویسی کا منہ بند ہو جاتا ہے۔
مگر آیئے ہم آج صرف کشمیر پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں ، بھارت کو ان اسی لاکھ مسلمانوں کے وجود پر کوئی اعتراض نہیں، اس لئے نہیں کہ وہ پہلے مرحلے میں انہیں وادی کشمیر میں اقلیت میں بدلنے کی تیاری کر رہاہے ا ور طویل عرصے کے فارمولے میںان کا وجود اسی طرح حرف غلط کی طرح مٹا دینا چاہتا ہے جیسے اسپین میں پانچ سو برس کی طویل حکومت کے بعد وہاں اسلام کے ہر نام لیوا کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ بھارت نے اسپین میںمسلمانوں کے مٹنے پر تحقیق کی ہے اور اب اسی تحقیق کے نتائج پر عمل پیرا ہے۔
کہنے کو ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں، ہمارے پاس طویل فاصلے پر مار کرنے والے میزائل بھی موجود ہیں مگر ہماری قوم کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے یلغار کے فیصلے کی قوت سے محروم ہے۔ کیا ہم بزدل ہیں ۔ کیا ہم منافق ہیں۔ کوئی تیسری صورت تو ہو نہیں سکتی یعنی ہم کسی مصلحت کا شکار ہیں یا کسی بھول میں ہیں کہ بھارت کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا واویلا مچا کر اسے ڈھیر کر لیں گے۔ بھائی ! وہ تو ہمیں دہشت گرد ثابت کرنے میںکامیاب ہو چکا اور ہم نے یہ لیبل قبول کر لیا۔ ہم ایف اے ٹی ایف کی ہرشرط پوری کر رہے ہیں جس سے ہمارے اندر سے جہاد کی رمق تک ختم ہو جائے گی۔ جہاد کے لئے ضروری نہیں کہ قوم ہی جہاد کرے ۔ یا قبائلی لشکر یلغار کرے۔ جہاد ہماری فوج نے ہی کرنا ہے اور فوج اسوقت یہ جہاد کرے گی جب ہم قومی سطح پر فیصلہ کریں گے کہ ہم نے کشمیر کو بزور طاقت آزاد کرانا ہے اور کشمیریوں کے لئے خالی خولی نعرے بازی نہیںکرنی۔ دل پر ہاتھ رکھ کر کہئے آپ میں سے کون ہے جو کشمیر کو فوجی یلغار سے آزاد کرانے کے فیصلے کے حق میں ووٹ دے گا۔ کوئی ایک بھی نہیں ۔ کیوں ۔ا س لئے کہ ہم ایک ایٹمی تصادم کاخطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں جس سے بر صغیر اور وزیر اعظم کی جنرل اسمبلی والی تقریر کے پیش نظر ان سرحدوں سے باہر بھی قیامت آ سکتی ہے۔ ایٹمی طاقت کا استعمال صرف امریکہ نے ایک بار کیا تھا اور جاپان کے دو شہروں کو ملیا میٹ کر دیا تھا، سوویت روس نے افغانستان میں شکست تسلیم کر لی مگر وہ نہ ایٹم بم چلا سکا نہ اپنے میزائلوں کابٹن دبا سکا۔ اور ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔دنیا بزدلوں کے لئے نہیں بنی۔ یہاں جس کی لاٹھی ا س کی بھینس کا اصول رائج ہے۔ یہ جنگل کا قانون ہے جسے حضرت انسان نے بھی متمدن، مہذ ب اور آئین اور قانون پرست ہونے کے باوجود اختیار کر لیا ہے۔ بر صغیر میں بھارت لاٹھی سے ہانکنے میں کامیاب دکھائی دیتا ہے ،اس نے اکہتر میں بزور طاقت پاکستان کو دو لخت کیا۔ اب مودی سر عام کہتا ہے کہ وہ بلوچستان، کو، آزاد کشمیر کو، اور گلگت بلتستان کو بھی اسی طرح الگ کروائے گا۔ اس کے کل بھوشنوں کا لشکر حرکت میں ہے۔ ہم نے ماضی میں بالفرض خالصتان کی سر پرستی کی تو اس کے نتیجے میں سنت بھنڈرانوالہ سمیت ہزاروں سکھوں کا خون کر دیا گیا ۔ بھارت کو صرف ایک نقصان پہنچا کہ اندرا گاندھی قتل ہو گئیں ۔ مگر اس سے بھارت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بھارت نے تو باپو گاندھی کو بھی خود ہی قتل کر دیا تھا۔ ہم اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ کشمیر میں ہم بھارت کو بلیڈ Bleed کر سکتے ہیں مگر میں بڑے دکھ سے کہتا ہوں کہ ہماری ماضی کی اس پالیسی سے ایک لاکھ کشمیریوں کی جانیں چلی گئیں۔ کئی ہزار کشمیری خواتین کی عزت بھی لوٹ لی گئی اور چند سو بچوں کی آنکھوں میں چھرے لگنے سے ان کی بینائی ضائع ہو گئی۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری ماضی کی اس کشمیر پالیسی سے ہم کشمیر کا ایک انچ بھی آزاد نہیںکرا سکے۔ صرف پنجاب کے گائوں گائوں میں شہیدوں کے غائبانہ جنازے ہی پڑھتے رہے اور ان شہادتوں پر فخر کرتے رہے ۔ بلا شبہہ شہادت پر فخر ہونا چاہئے مگر شہادت سے کوئی مقصد بھی تو حاصل ہونا چاہئے۔ ہم کوئی ایک مقصد بھی حاصل نہ کرسکے۔ اور اگر ہم نے بھارت کے خلاف جہاد کے لیے صرف کشمیریوں پر انحصار جاری رکھا تو ان بے گناہوں کا ہی خون ہوتا رہے گا یا کنٹرول لائن اور ورکنگ بائومڈری گرم رہے گی۔ پاکستان کے ہاتھ کیا آئے گا۔ اس پر قومی مباحثہ ہونا چاہئے۔ صرف کشمیر کشمیر کی تسبیح کرتے رہنے سے تو کشمیر ہمیں نہیں مل سکتا۔ تو پھر کشمیر ہمیں کیسے ملے گا۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر قوم کو غور کرنا ہو گاا و ر آئندہ کے لئے کسی فیصلے پر پہنچنا ہو گا ورنہ ہم دنوں کی گنتی کرتے رہیں گے ۔ آپ کہیں گے ایک سو تیس دن ہو گئے، میںکہوں گا۔ نہیں جناب !26,415 دن گزر گئے اور ہم یہ تو بھول ہی رہے ہیں کہ مشر قی پاکستان سے ہاتھ دھوئے 17,528 دن گزر گئے۔ ہم تو سود و زیاں کا حسا ب بھی ٹھیک سے نہیں کر سکتے۔
آئیے، ایک حساب اور کر لیتے ہیں ۔ اگر صرف اسی لاکھ کشمیریوں ہی نے اپنے آپ کو آزاد کرواناہے تواس کے لئے ہر کشمیری ، بوڑھے، بچے اورخاتون کو گیارہ بھارتی فوجیوں کی جان لینا ہو گی ۔
مگر میں پھر اس حیرت کااظہار کرتا ہوں کہ ہمیں صرف اسی لاکھ کشمیری مسلمانوں ہی کی کیوں فکر ہے۔ تیس کروڑ بھارتی مسلمانوں کی فکر کیوں نہیں جنہیں بی جے پی کہتی ہے کہ جائو پاکستان چلے جائو اور ہم ان تیس کروڑ بنگالی مسلمانوں کو کیوں بھول گئے جو چودہ اگست انیس سو سیتالیس کو پاکستان کا حصہ تھے بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد بھی انہی نے رکھی تھی اور مینار پاکستان کے جلسے کی قرارداد بھی انہی نے پیش کی تھی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38