4دسمبر2009ء کو ایک جانکاہ حادثہ ہوا جس نے ہر انسان کو تڑپا دیا، راولپنڈی پشاور روڈ پہ فوجیوں کی ایک کالونی ہے جس کا نام پریڈلین ہے اس کالونی میں تمام رہائشی فوجی افسران ہیں یہ وہ کالونی ہے جہاں فوجیوں کے بچے بچے خوف وخطر کرکٹ، فٹ بال اور بیڈمنٹن کھیلتے ہیں چھوٹے بچے سائیکلنگ کرتے اور خواتین شام کو چہل قدمی کرتی ہیں بزرگ حضرات اس کالونی کی مسجد میں پانچ وقت کی نماز ادا کرتے ہیں۔ ان فلیٹس کی بالکونی میں افسروں کے بوڑھے والدین صبح وشام بیٹھ کر تسبیح کرتے اور لین میں کھیلنے اور گزرنے والے لوگوں کو دیکھ کر محظوظ ہوتے ہیں یہ پریڈ لین کالونی انتہائی محفوظ ہے اسکے دو اطراف میں حفاظتی دروازے ہیں جہاں پر کھڑے فوجی سپاہی ہر ایک کو جانچ پڑتال کے بعد اندر آنے دیتے ہیں یہاں تک کہ سٹاف کار جن میں اگرجنرل بھی بیٹھے ہوں تو چیک کی جاتی ہے۔مجھے جب پتہ چلاکہ اس پریڈلین کی مسجد میں دہشت گردوں نے حملہ کردیا، چند لمحے کیلئے میں سکتے میں آگئی اور حسبی اللہ پڑھنے لگی، لیکن جب ٹی وی آن کیا تو میرا ہاتھ میرے دل پہ تھا اور آنکھوں سے آنسو راں تھے تب میں نے ارادہ کیا کہ میں اس بربریت کے عمل کو صفحات پہ بکھیر کر رہوںگی، اس سلسلے میں مجھے متعدد بار لاہور سے راولپنڈی کا سفر کرنا پڑا۔ گرم دوپہروںمیںہر گھر میں جاکر ذاتی طور پہ ملاقات کی اور سامنے بیٹھ کر میں نے انکی آہ زاری سنی انکے دل کوتڑپتے دیکھا ان کی آنکھوں سے لہو بہتے دیکھا اور خود خاموش رہی کہ مجھے اس صبر میں صبر کا مظاہرہ کرنا تھا آپ یقین جانیں، میں آج بھی حیران ہوتی ہوں کہ مجھے اللہ نے اتنا صبر کیسے دیاکہ میں نے انکے آنسوئوں کے سمندر میں خود کو بہانے کی بجائے اپنے قلم کو رواں رکھا اورصفحات پہ صفحات لکھتی چلی گئی بہت سے گھرانے ایسے تھے کہ انہوں نے مجھے رخصت کرتے وقت کہاکہ ہم تو منتظر تھے کہ کوئی ہم تک پہنچے۔کسی نے کہایہ بہت نیک کام ہے جو آپ انجام دے رہی ہیں میں نے پر یڈلین کا ہر دروازہ کھٹکھٹایا اوریہ بھی نہ سوچا کہ اگر کوئی میرے لیے دروازہ نہ کھولے تو کیا ہوگا میں ان دکھ لوگوں کو جب بتایاکہ میں اس طرح گھر سے نکلی ہوں کہ آپکے ان اذیت ناک لمحات اور حادثہ جاںکوسنوں اور اپنی تحریر میں لائوں تو کئی مائوں نے مجھے بے اختیار گلے لگالیا۔ یہ بدنصیبی کی بات ہے کہ خورشید ضو ہے پھیلی مگر ہر سو اندھیری رات ہے، لفظ آنسوئوں کی صورت بہہ رہے ہیں، وقت کے خاموش لمحے نوحہ کہہ رہے ہیں، سانحہ پہ سانحہ ہوا چلاجاتاہے، لحد میں نمازیں ہیں بے اماں، بکھرے رکوع وسجود ہیں یہاں وہاں، کہیں باوضو بامقدم باادب تکبیریں ہیں، قلم ہے اورشہہ رگ کاٹتی شمشیریں ہیں۔عبداللہ خذیفہ اور ولید بھی سپردخاک ہوگئے، فخرالحسن اور انکے بیٹے لحد میں اتارے گئے، جنازے ایسے بھی تھے جو اغیار کے کاندھوں پہ تھے، بہنوں کے آنچل بادباں سے پھیلے رہے، مائوں کے دامن خون میں لتھڑے رہے۔
ہیں کربناک مناظر یہاں!
کہ ویرانی سو رہی ہے ، بربادی ہورہی ہے، دیکھو ماتم کی صورت ،وہ دیکھو ممتا کی قسمت، اعضا بکھرے ہیں چار سو، کربلاہے ہو بہو، یہ ہاتھ، یہ کٹی گردن، سجدے میں جھکا بوڑھا بدن، یہ چھوٹے چھوٹے معصوم کا م ودہن، جوتیاں خون سے بھری ہوئی، گلابی پائوں کی ایڑیاں کٹی ہوئیں، یہ آنکھیں بند کیوں ہیں؟ انکے سپنے تو جاگ رہے ہیں، تتلی اور کوئل، نیلی چڑیا نغمہ جاں الاپ رہے ہیں۔اے غمزدوں کے چارہ گر مقتل زیست کو اماں دے دے، قافلہ تیارہے کوئی راہنما دے دے، بکھرے ہوئے اعضائوں کی تسبیحیاں بناکر پرکھوں کا لہو رائیگاں نہ کر ہمیں منزلوں کا ہے یقین کہ ابھی چراغ دل ہے جلا ہوا جانیوالوں نے لوٹ آنے کا وعدہ ہے رکھ لیا، دل کی دنیا لوٹ کے لے جانے والو جینا پھر سے سکھا دو مارنے والو، ہاری ہوئی ممتا کی نامکمل ہیں دعائیں سوئے ہوئے لال کو کیسے ہم جگائیں، اٹھ بھیا گھر کو چلتے ہیں وہ جو کام ادھورے تھے وہ جو خواب ٹوٹے تھے انہیں سجائے رکھتے ہیں۔بوڑھے دادا کی غمناک روتی آنکھوں میں آیتوں کی صورت میں خواب بُنتے ہیں، قوم کا نقصان نہیں ہونے دیتے، دہشتگردی کیخلاف نئی جنگ تیارکرتے ہیں۔ پلٹ کر زندگی کی طرف ہم اپنے مسکن پہ فخر کرتے ہیں ، مقتل زیست کو دہشت گردوں کے نام کرکے ایک نیا سپاسنامہ تحریر کرتے ہیں یوں محبتیں اسیر کرتے ہیں۔۔اپنے ہاتھوں کو ایک نئی زنجیر کرتے ہیں۔قارئین یہ تحریر جو آپ کے ہاتھ میں ہے اسکے ایک ایک حرف میں میرے آنسو اور دکھ شامل ہیں، خضوع وخشوع کی قبولیت تو اللہ بے نیاز کی ذات کا حصہ ہے، مگر میں ایک ایک حرف کے ساتھ اپنے دل کو تڑپتے دیکھتی رہی، ہرماں اور بچے کیلئے ہرجوان اور بوڑھے کیلئے میں اسی طرح قلم کے ذریعے خون رقم کرتی رہی۔قلم اور ادیب کا رشتہ پانی اور مٹی سا ہے، میں اس دشت کی سیاحی کو نکلی تو تو نگری نہ رہی،فقیری نے کیایوں احاطہ کہ دنیا سے دلبری نہ رہی، درد وغم کا یارانہ نہ رہا، بسملِ جاں رہی، قرار کو ترسی، ریت کے جزیرے پہ کیا پڑائو، بھنور سے نکلی تو تلاطم نے کرلیا گھیرائو، یہی زیست کی کہانی ، یہی قلم کی روانی اور یہی رابعہ رحمن روہی کا فسانہ ہے۔
قیمتاً بھی نہ ملی زندگی
موت کا ڈھیر تھا
کارخانہ جہاں میں
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024