اسلام آباد ایک ایسا شہر ہے جہاں بڑی خبریں اور افواہیں جنم لیتی ہیں، اِن میں سے بیشتر کا تعلق سیاست سے جُڑا ہوتا ہے۔ خبریں ہوں یا افواہیں؟ تمام میڈیا ہائوسز اور اخبارات کے نمائندگان اِنکے حصول کیلئے اقتدار کے ایوانوں میں محوِ گردش ہوتے ہیں۔ نا اُنکے موبائل فون خاموش ہوتے ہیں اور نہ WhatsApp۔ جیسے ہی کوئی خبر میڈیا نمائندگان تک پہنچتی ہے۔ وہ خبر اُن کے ذریعے نشر یا پرنٹ ہونے کیلئے اپنے اپنے پوائنٹ پر چلی جاتی ہے۔ زیادہ حیران کن اور تعجب کی بات یہ ہے کہ اکثر اوقات ’’ افواہ ‘‘ بھی خبر کا روپ دھار لیتی ہے۔صحافت میں برسہا برس گزارنے کے بعد نہایت باریک بینی سے اس بات کا عمیق جائزہ لیا ہے کہ اب ’’افواہ‘‘ بھی خبر ہی ہوتی ہے۔ وہ بات جو بہت ہی سرگرم ہو جائے۔ چاہے اُس میں کوئی سچائی اور حقیقت نہ ہو، محض ’’افواہ‘‘ ہو لیکن زبانِ زد عام ہونے لگے اور یہ افواہ کسی غیر محتاط رپورٹر کے ہاتھ لگ جائے تو وہ اُسے ’’خبر‘‘ سمجھ لیتا ہے۔ اُس پر کوئی تحقیق یا تصدیق کئے بغیر رپورٹ کر دیتا ہے۔کسی بھی ’’افواہ‘‘ کو خبر بنا لینا اس کا تعلق سیاست سے ہو، کسی کی ذات، ادارے یا کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے۔ بڑا نامناسب عمل ہے۔ جب سے میڈیا میں مقابلے کی دوڑ شروع ہوئی ہے خود ساختہ خبروں کی مینوفیکچرنگ ہونے لگی ہے جبکہ صحافت کا معیار بھی گرتا جا رہا ہے۔ لیکن ایک بات ضرور کہوں گا کہ جو اخبارات تیس، چالیس سال پہلے موجود تھے ، اُن میں جتنے بھی کارکن صحافی کام کرتے تھے وہ صحافت کے مضبوط ترین ستون اور اہم انسٹی ٹیوشن تھے۔ خبر کے معیار، اسلوبِ تحریر، خبر کے واقعاتی تسلسل اور ربط و ضبط کو دیکھنا، پرکھنا اور خبر کے متن میں گرائمر کا خیال رکھنا نیوز روم کے اندر بیٹھے نیوز ایڈیٹر اور سب ایڈیٹرز کی ذمہ داری تھی اور وہ ان تمام چیزوں کا خیال رکھتے تھے۔ کسی خبر یا تحریر میں انگریزی لفظ کے استعمال کو شجرِ ممنوعہ سمجھا جاتا تھا۔ ماضی کے ان جرنلسٹوں کا کہنا تھا کہ اردو اخبار میں انگلش کا کیا کام؟ چالیس سال پہلے جو اخبار شائع ہوتے تھے اُسے پڑھ کر والدین اپنے بچوں کی اردو ٹھیک کراتے تھے۔ یہ اخبار ماضی کے طالب علموں کیلئے اہم انسٹی ٹیوشن کا درجہ رکھتے تھے اور علمی خزانہ تھے۔ ہماری صحافت آج اُس مقام پر کھڑی نظر نہیں آتی، جہاں اُسے کھڑا ہونا چاہیے۔ الیکٹرانک میڈیا نے تو حد ہی کر دی ہے۔ خبر، خبرہے یا کوئی افواہ…؟ بہت کم رپورٹر اُس کی چھان بین کرتے ہیں یا حقائق کا کھوج لگاتے ہیں۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ اُنکی ذمہ داری صرف خبر دینا ہے اور وہ دے دیتے ہیں، چاہے افواہ ہی کی صورت اُن تک کیوں نہ پہنچی ہو۔افواہ، جنم لے تو خبر کیسے بن جاتی ہے۔ یہ سوچنے کی بات ہے۔ خود صحافتی اداروں کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے اداروں میں کام کرنے والے کارکن صحافیوں کی عملی تربیت کیسے کر سکتے ہیں۔ میری تجویز یہ ہو گی کہ مستند اور منجھے ہوئے جرنلسٹوں کی رہنمائی میں اگر تربیتی ورکشاپس کا اہتمام کیا جائے جس میں خبر کے مصدقہ ذرائع کے حصول کو یقینی بنانے سے لیکر خبر بنانے کے طریقۂ کار تک با ت ہو۔ خبر میں الفاظ کا چنائو اور انٹرو کی اہمیت جیسے موضوعات بھی ان ورکشاپس کے نصاب کا حصہ ہوں تو اس سے صحافت میں مزید بہتری اور نکھار پیدا ہو سکتا ہے۔ تاہم جو ادارے مسلمہ صحافتی اصولوں اور ضابطوں کی پاسداری اور پابندی کرتے ہیں وہ قابلِ تحسین ہیں۔ ہمیں اُن پر فخر ہے اور کرنا بھی چاہیے۔ باقی جو ہیں انہیں اپنے معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024