سٹی گورننس اور اسلام آباد
کیا وفاقی حکومت کسی ایک شہر کو ماڈل سٹی بنا کر اچھی گورننس کی مثال قائم کر سکتی ہے ؟ ایسا شہر جس میں صفائی ، قانون کی حکمرانی ، ای گورننس ، سیکورٹی ، پانی ، ٹریفک پولیس ، عدالتی اور دفتری معاملات مغربی ممالک کی طرح چلیں اور عوام سیاسی تشدد اور عوام معروضی دبائو سے محفوظ سکون کی زندگی گذار سکیں ؟ کسی بھی قومی کام کی سرانجام دہی میں سب سے پہلے معاشرتی دانائی اور عملیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ سماجی دانش حکمران کے تجربات کی روشنی میں وہ منصوبہ بندی ہوتی ہے جسے وہ بااختیار ہونے کے بعد نافذ کرنے کا خواہشمند ہوتا ہے ۔ عملیت معاشرتی دانش کو نافذ کرنے کی جرات نہ ہو تو وہ بڑا لیڈر نہیں بن سکتا ۔ سیاسی رہنما نے تاریخ میں اچھے الفاظ کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو اسے معاشرتی دانش کے ساتھ ہمت و جرات بھی اختیار کرنا ہو گی ۔ عملیت کے بغیر معاشرتی دانش رکھنے والا شاعر ، اینکر ، تبصرہ نگار ، مشیر ، کالم نگار اور مصنف تو ہو سکتا ہے مگر حکمران یا لیڈر نہیں ۔ عملیت حکمران کے لئے وہ مشکل مرحلہ ہوتا ہے جس پر ممکن ہے کہ اسے ہمسایہ ممالک اور بڑی بڑی طاقتوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے ۔ خارجہ دبائو کے علاوہ ہو سکتا ہے کہ ملک کے اندر سے بھی اسے بہت بڑی مخالفت کا سامنا ہو اور یہ مخالفت اس کے سیاسی کیرئیر کو تباہ کرتی دکھائی دے ، ایسے مشکل وقت میں لیڈر کی عملیت کا امتحان ہوتا ہے ، اگر وہ اپنے اقتدار یا سیاسی کیرئیر کے تحفظ کے لالچ کا شکار ہو گیا تو تاریخ میں وہ مر جاتا ہے اور اگر اُس نے معاشرتی تبدیلی کے لئے ہمت و حوصلہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوم کو نئی شاہراہ پر ڈال دیا تو تاریخ میں اس کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا ۔ حضرت امام حسینؓ وقتی مصلحت کا شکار نہ ہوئے اس لئے وہ تاریخ انسانیت میں امر ہو گئے ، معاشرتی دانش اور عملیت کی بہترین راہنمائی خاندان رسول ؐ سے حاصل کی جا سکتی ہے ۔ لیکن ہمیں ہر مثبت تبدیلی کا ماڈل یورپ ہی نظر آتا ہے تو اچھے کام کے لئے جہاں سے بھی رہنمائی لی جائے اس میں مضائقہ نہیں ۔ مغربی ممالک میں جمہوری اداروں کے کام میں رکاوٹ نہیں ہوتی ۔ قومی اسمبلی کا کام قومی اور بین الاقوامی سطح کے معاملات کو حل کرنا ہے ، صوبائی حکومتوں کو صوبائی سطح کے معاملات کو دیکھنا ہوتا ہے ۔جبکہ مقامی حکومتوں کا کام سڑکیں ، صفائی ، تعلیم ، مقامی ٹیکس ، پانی ، صحت اور دوسری مقامی سہولتوں کا انتظام کرنا ہے ۔ کیا پاکستان میں کسی حکومت نے مقامی حکومتوں کو مکمل بااختیار بنایا ؟ ایک آمر پرویز مشرف کا نام آتا ہے مگر بدقسمتی سے اُس نے بھی اس ادارے کو اپنی سیاسی بقاء کے لئے استعمال کیا ۔ اگر حکومت مثبت تبدیلی میں سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے نچلی سطح کے مسائل سے اپنی جان چھڑائے اور بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنا دے تاکہ عوام کو علم ہو کہ پکی نالی نہیں بنی تو اس میں عمران خاں کا کوئی قصور نہیں ۔ پاکستان میں یہ ایسی بری روایت ہے کہ اول تو اداروں کو بااختیار نہیں بننے دیتے اور دوسرا اداروں کو کرپشن کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ پنجاب یا دوسرے صوبوں میں سیاسی مداخلت کیسے ختم ہو سکتی ہے جب بیس گریڈ کی سمری وزیر اعلیٰ کے دفتر میں لازمی جاتی ہو ؟ کیا افسران مجبور نہیں کہ وہ وزیر اعلیٰ کے پی اے یا دوسرے سیاسی لوگوں سے رابطے استوار رکھیں ؟ صرف باتوں سے بات نہیں بنتی فائلوں کے دفتری روٹ کو بدلیں تاکہ ملازمین باعزت طریقے سے عوام کی خدمت کر سکیں ، مرکزی اور صوبائی معاملات کو چھوڑیں آپ ایک شہر کو ماڈل بنا کر دکھا دیں جس میں الیکٹرانک ذریعہ سے بنک ، دفاتر ، خریداری ، پٹرول پمپ، تبادلے تقرری ، شکایات اور اُن کا ازالہ ، پولیس سروس ، سیکورٹی ، تعلیم ، صفائی کے مسائل وغیرہ مغربی ممالک کی طرح انجام دئیے جائیں ۔ دو طریقے ہیں یا تو پنجاب کے ماضی کے انتظام میں چلے جائیں اور شہر کے گرد دیوار بنا دیں ۔ سرائیں ، کنوئیں تعمیر کرائیں ، شہر سے جانے اور شہر میں آنے والے ہر شخص کا ریکارڈ رکھیں اور یہ انتظامات اتنے موثر ہوں کہ بادشاہ سلامت یعنی وزیر اعظم یا صدر ، آرمی چیف ، چیف جسٹس اکیلے شہر میں گھوم کر رعایا کا حال جان سکیں یا پھر مغربی انتظامات کو پوری طرح آزمائیں ۔ رقم کی ادائیگی ہر جگہ پر کارڈ کے ذریعے ہو تاکہ ایک ایک روپے کا ریکارڈ موجود ہو ۔ ہمیں معلوم ہوا کہ حکومتی اور سیاسی لوگ اپنے پیسے وکیل یا کاروباری حضرات کے اکائونٹ میں رکھتے ہیں ، زمینوں کی الاٹ منٹ اپنے نوکروں کے نام کراتے ہیں ۔ آج پورے ملک سے غریب کے اکائونٹس سے کروڑوں روپے مل رہے ہیں ۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے ناموں کو خفیہ رکھ کر عیش کر رہے ہیں ۔ بنک اہلکاروں سے پوچھ گچھ کرکے اصلی مالکان تک پہنچا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ مخصوص بنک ٹرانزکشن پر بنک اہلکار باقاعدہ مالک کو فون کرتا ہے پھر ادائیگی ہوتی ہے ۔ اس فون کا باقاعدہ بنک میں مستقل اندراج ہوتا ہے ۔ یہ سب ڈرامہ بازی ہے کہ ریڑھی والا کروڑ پتی نکلا اور اُسے پتہ ہی نہیں ۔ اُسے واقعی پتہ نہیں مگر بنک والے کو پتہ ہے کہ اکائونٹ کس نے کھلوایا اور کون پیسے لیتا رہا ۔ لہذا اگر اسلام آباد کو ماڈل سٹی بنا دیا جائے ، جس میں خریدوفروخت کارڈ کے ذریعے ہو ، کسی طرح بھی نقد کیش کے ذریعے کاروبار نہ ہو تو بڑے بڑے مسائل ختم ہو جائیں گے ۔ پولیس کی ہر بات ہر حرکت کیمرہ میں ریکارڈ کی جا رہی ہو ۔ عدالتیں وکیلوں اور سیاسی لوگوں کے دبائو سے آزاد ہو کر میرٹ پر چند دنوں یا ہفتوں میں فیصلے کریں ۔ پولیس مدعی کو پریشان کرنے کی بجائے مجرم کا جینا حرام کر دے ۔ افسران ماتحت عملے کی عزت و احترام کرتے ہوئے اُن سے قانون کے مطابق کام لیں ، اضافی بوجھ نہ ڈالیں ۔ دفتر وقت پر کھلیں اور وقت پر بند ہوں ۔ افسران فائلیں گھر لے کر نہ جائیں اور نہ ہی دفتری وقت کے بعد دفترکھلا رکھیں ۔ وہ باقی وقت اپنے خاندان اور بچوں کو دیں ، سیر و تفریح کریں تاکہ اُن کے دماغ تازہ رہیں ۔ روزانہ آٹھ گھنٹے مسلسل کام کریں تو کوئی کام ادھورا نہیں رہ سکتا ۔ بار بار میٹنگ کے کلچر کو ختم کریں اور تمام کام موبائل اور ای میل کے ذریعے نپٹائیں ۔ ہر تعمیر کا نقشہ پولیس کے علم میں ہو اور دروازے ایسے ہوں کہ لاقانونیت کو روکنے کے لئے پولیس کو اندر داخل ہونے میں مسئلہ نہ ہو ۔ پرائیویٹ سکیورٹی اور اسلحہ رکھنے پر پابندی ہو ، صرف سرکاری تعلیمی ادارے اور نصاب ہو ، پروٹوکول نہ ہو اور شہریوں کو ٹریفک اور سڑک کراسنگ کے اصولوں کی خلاف ورزی پر جرمانے کئے جائیں ۔ اس شہر میں سرکاری افسران سے گاڑیاں واپس لے کر خاص بسیں چلائی جائیں اور سائیکلنگ کو رواج دیا جائے ۔ اس شہر میں احتجاج صرف پریس ٹی وی کے ذریعے ہی ہو ، وہ بھی اُس وقت جب متعلقہ دفتر شکایات کو نظرانداز کر چکا ہو ۔ سکیورٹی کیمرے نہ صرف عوامی جگہوں پر ہوں بلکہ دفاتر میں بھی ہوں تاکہ افسران سے لے کر عام اہلکار کی ریکارڈنگ ہو رہی ہو ۔ پولیس سروس بچے بوڑھے اور عورت کو گرفتار کرنے کا اختیار نہ رکھے جب تک عدالت حکم جاری نہ کرے ۔
مجھے یقین ہے کہ اس ماڈل سٹی کے بارے میں تجاویز کو پڑھ کر آپ ضرور ہنسیں گے کہ یہ کیا احمقانہ توقعات ہیں یہ سب تو ناممکن ہے مگر حکمران یہ بتائیں کہ اگر آپ ایک شہر کو امن کا گہوارہ نہیں بنا سکتے تو پورے ملک میں امن کہاں سے لائیں گے اوراگر آپ یہ کہیں کہ ان تجاویز پر کیسے عمل کیا جا سکتا ہے ؟ تو اس کے لئے گذارش ہے کہ دنیا میں ایسا ہو رہا ہے ۔ تما م حکمران خاندان مغربی ممالک میں رہتے ہیں ، وہ اپنے بچوں کو نماز پڑھنے سے زیادہ مغربی ملک کا پاسپورٹ لینے کی تلقین کرتے ہیں ۔ تاکہ یہاں سے کرپشن کرکے بیرون ملک جائیدادیں لے کر بچوں کے حوالے کریں اور پھر حکومت پوچھے تو وہ جواب دیں کہ بچوں کو آپ نہیں ہاتھ لگا سکتے کیونکہ وہ امریکی یا برٹش نیشنل ہیں ۔ اگر آپ کچھ اصلاحات کرنا چاہتے ہیں تو قانون بنا دیں کہ بچے کے باہر کی نیشنلٹی لینے کے بعد والد پاکستان میں کوئی سرکاری یا سیاسی عہدہ نہیں رکھ سکتا ۔ حکومت کو چاہئیے کہ ایسے دروازے بند کریں جن سے تباہی داخل ہو سکتی ہے مگر حکومت یہ کیسے کرے گی ، اُن کی اپنی صفوں میں کئی لوگ ایسے ہی ہیں جن کی اولادیں مغربی ممالک کی نیشنل ہیں اگر ایسا ہی چلنا ہے تو پھر تبدیلی کی کوئی امید نہیں ہے ۔ تبدیلی اس وقت ممکن ہوتی ہے جب تبدیلی لانے والا خود اپنی سہولتیں اور انعامات ختم کریں ۔ فرانس کی قومی اسمبلی کی مثال سامنے ہے ۔ تمام کام بہت مشکل ہیں بلکہ موجودہ معاشرتی اور سیاسی سماج میں یہ ناممکن لگتا ہے مگر ہمارے پاس اور کوئی راستہ بھی نہیں ہے ۔ لہذا پورے ملک میں ایسی تبدیلیاں لانے سے پہلے ایک شہر یعنی اسلام آباد ہی کو ماڈل بنا کررفتہ رفتہ اس تحریک کو پورے ملک میں پھیلا دیا جائے تو شاید یہ آنے والی سات دہائیوں میں ممکن ہو ، مگر اس وقت ضرورت ہے کہ اس کام کا آغاز کر دیا جائے ۔ معاشرتی دانش موجود ہے صرف عملیت کی ضرورت ہے اور کام کا آغاز اسلام آباد کو ماڈل سٹی بنا کر کیا جا سکتا ہے ۔ دیکھتے ہیں کہ اسلام آباد کی زمینیں قبضہ مافیا سے آزاد ہوتی ہیں یا نہیں ، لیز پر لی گئی جائیداد یں منسوخ ہوتی ہیں یا نہیں ۔ انعامی پلاٹ منسوخ ہوتے ہیں یا نہیں ۔ بھتہ ، رشوت خوری ، بدمعاشی ختم ہوتی ہے یا نہیں ، یونیورسٹیوں اور دوسرے اداروں سے متشدد گروہوں کا اثر و رسوخ ختم ہوتا ہے یا نہیں ، مسجدوں ، امام بارگاہوں سے سلامتی اور قومیت جھلکتی ہے یا نہیں ۔ اگر آپ خلوص نیت کے ساتھ اس کام کا آغاز کریں تو ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں ۔