سنٹر فار گلوبل سٹریٹجک سٹڈیز!
اس صداقت میں بلامبالغہ کوئی شک نہیں کہ پانی جیسے حساس معاملے اور پھر ڈیمز کی اہمیت اور تعمیر بارے سب سے پہلے انیشیٹو چیف جسٹس جناب میاں نثار ثاقب نے لیا ۔اس سلسلہ میں فنڈ کا قیام اور آگہی مہم بھی شروع کردی گئی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس اہم ترین فریضہ میں سنٹر فارگلوبل سٹریٹیجک سٹڈیز ( سی جی ایس ایس ) نے بھی نہایت مثالی کردار ادا کیا ۔ سی جی ایس ایس ایک تھنک ٹینک ہے جس کے چیئرمین سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ظہیر الالسلام ، صدر ریٹائرڈ میجر جنرل خالد عامر جعفری اور ان کی ٹیم میں کرنل(ر) تیمور اور میجر (ر) محمد اقبال جیسی متحرک شخصیات شامل ہیں پاکستان کی سالمیت اور بقا کا معاملہ ہو یا ایسا کوئی بھی ریجنل ایشو ، باالخصوص سنٹرل ایشین ممالک کے ساتھ یا کوئی ملکی معاملہ جو سنگین اور فوری توجہ کا حامل ہو تو سی جی ایس ایس کوئی بھی وقت ضائع کیے بغیر اس پر بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرواتا ہے ۔ اس مسئلہ پر ملکی اور غیر ملکی ماہرین اپنے مقالا جات پیش کرتے ہیں۔ سفارشات مرتب کی جاتی ہیں اور متعلقہ اتھارٹیز کو بروقت پیش کرکے اعلیٰ کردار ادا کیاجاتا ہے ۔ پانی اورڈیمزکی تشویش کو سمجھتے ہوئے سب سے پہلی کانفرنس24 اکتوبر کو اسلام آباد میں منعقد کی گئی ۔ وزیر مملکت برائے موسمیاتی تبدیلی محترمہ زرتاج گل مہمان خصوصی تھیں ۔ 13 نومبر اسلام آباد میں ہی ایک رائونڈ ٹیبل کانفرنس کا اہتمام ہوا اور اس میں سابق وفاقی وزیر دفاع لیفٹیننٹ جنرل ر خالد نعیم لودھی مہمان خصوصی تھے اور اسی موضوع پر تیسری بین الاقوامی کانفرنس 10 دسمبر کو منعقد کی گئی ۔ اس موقع پر وفاقی وزیر قانون وانصاف فروغ نسیم مہمان خصوصی تھے دیگر اہم شخصیات کے علاوہ سری لنکا نیوی کے سابق چیف نے بھی خصوصی شرکت فرمائی ۔ واپڈا کے چیئرمین جنرل ریٹائرڈ مزمل کی تقریر اور پریڈنٹیشن بہت ہی عمدہ تھی انہوں نے حاضرین کو بتایا کہ پانی کے معاملات مشکل ضرور مگر ایسے بھی نہیں کہ ایمرجنسی نافذکردی جائے ۔ فنڈز کی کمی اور مس مینجمنٹ ہونے کی وجہ سے ہمارے مسائل زیادہ ہیں۔ ہم نئے ڈیمز بنانے کی مکمل اہلیت رکھتے ہیں مگر فنڈز کی کمی اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔تاہم سالانہ کی بنیاد پر اگر حکومت فنڈز کا اہتمام کرے تو ہم پانچ سے سات سال میں اپنی تمام مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں۔ وفاقی وزیر نے انڈس واٹر ٹریٹی کا ذکر کرتے ہوئے بین الاقوامی اداروں سے درخواست کی کہ وہ اس اہم ایشو پر اپنا کردار ادا کریں کیونکہ بھارت پانی کو اپنے انفراسٹرکچر پر استعمال کرتا ہے جبکہ بنیادی طورپر پانی انسانی زندگی اور زراعت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اور اسی سوچ کے تحت انڈس واٹر ٹریٹی میں بہتری کی ضرورت ہے جس سے مستقبل میں حالات کو پرامن بنایا جا سکتا ہے ۔ کانفرنس میں دیگر ماہرین نے بھی خطاب کیا اور کچھ ایسی دلچسپ معاملات فراہم کیں کہ جس کی روشنی میں اگر ہم اپنی زندگی میںمثبت سوچ کے تحت ، آنے والے دنوں ، مہینوں اور سالوں کے لئے ۔ اپنی اولاد اور آنے والی نسلوں کے لیے اپنے رویوں میں تبدیلی لاتے ہوئے پانی کا استعمال احتیاط سے کریں تو حیرت انگیز نتائج نکل سکتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق ہمارے ملک میں پانی کے استعمال کاتناسب 93 فیصد زراعت 5% فیصد انسانی زندگی اور 2 فیصد انڈسٹری میں ہے۔ ہمارے ملک میں زراعت جدید دور کے تقاضوں کے مطابق قطعاً نہیں ہے ۔ یہ جان کر حیرانگی ہوگی کہ جس فصل میں پانی کم استعمال ہونا چاہیئے وہاں زیادہ پانی ملنے کی وجہ سے فصل کا الٹانقصان ہوتا ہے جن علاقوں میں گندم کاشت ہوناچاہیئے وہاں ہم گنا، جہاں کپاس کاشت ہو نا چاہیئے ہم وہاں کچھ اور کاشت کرتے ہیں۔ زراعت میں 93% پانی استعمال ہونے کے باوجود ہماری سالانہ پیداوار ان ممالک سے کہیں کم ہے جہاں اس کا دس فیصد پانی بھی استعمال نہیں ہوتا ۔ اسی طرح ہماری نہریں پرانی طرز کی بنی ہوئی ہیں جہاں سے پانی کی لیکج کی وجہ سے اس کا بے حد زیاں ہوتا ہے۔ اگر ہمارے امیر اور مضبوط زمیندار کینیڈا کی طرز پر فواروں کے ذریعے فصلوں پر پانی کا استعمال کریں تو نتائج میں خاطر خواہ اضافہ اور پانی کا کم سے کم استعمال ہو سکتا ہے۔ اگر ہم 93 فیصد پانی میں سے آدھا بھی بچالیں تو کم از کم ہم اپنی آنے والی نسلوں پر احسان عظیم کر سکتے ہیں ۔ زندگی رویوں کا نام ہے ۔ مثبت رویوں سے جہاں ملک وقوم کی خدمت ہو سکتی ہے وہاں ہم اپنی اولاد کی بہتر طریق سے خدمت بھی کر سکتے ہیں۔ میرا تعلق پوٹھوار سے ہے جہاں پورے گائوں میں ایک زمانے میں زیادہ سے زیادہ دو کنویں ہوتے تھے۔ خواتین سر پرگڑھے رکھ کر پانی لایا کرتی تھیں اور پوراگھرانہ محدودطریقہ سے پانی کو اس طرح استعمال کرتا تھا کہ کبھی کمی کا تصور تک نہ ہوا ۔ اس وقت زرعی زمینوں میں تالاب بنے ہوئے تھے جس کے ساتھ بڑی نالیاں ہوتی تھیں ، لوگ پانی کااستعمال اس طرح کرتے کہ پانی ان نالیوں سے ہوتا ہوا فصلوں میں چلا جاتا چنانچہ ایک ہی وقت میں دو مقاصد حاصل ہو جاتے ۔ اسی طرح ہمارے علماء کرام کو بھی اس کارخیر میں حصہ لینا چاہیئے ۔مثال کے طورپر ہماری آبادی 24 کروڑہے ۔ فرض کریں 8 کروڑآبادی پانچ وقت کے نمازی ہے ۔ ایک وقت کے وضو پر عام حالات میں تقریبا دس لٹر پانی استعمال ہوتا ہے توگویا 40 کروڑلٹر روزانہ پانی صرف وضو کے لئے چاہیئے ۔اگر ہم ایسی تعلیم دیں کے استعمال کم یا آدھا کروا دیں تو 20 کروڑلٹر پانی ہم روزانہ کی بنیاد پر بچا سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم گھر کے پانچ آدمی پانچ باردن میں واش روم جائیں تو بٹن دبانے پر 16 لیٹر فی بندہ ہر بار پانی استعمال کرتا ہے اور ہم کموڈ پر2 لیٹر والابٹن لگوا لیں تو 14 لٹر پانی فی بندہ ہر بار پانی بچا سکتا ہے۔ گاڑی کی صفائی پر کم از کم 40 لٹر پانی استعمال ہوتا ہے اس کو بھی ہم کم سے کم مقدار تک لے کر جاسکتے ہیں۔ چنانچہ معمولی احتیاط سے ہم کروڑوں لٹر پانی روزانہ بچاسکتے ہیں۔اطلاعات ہیں کہ حکومت پنجاب نے مصفا پانی پر کچھ قانون سازی بھی کی ہے جس سے پانی کا نقصان کم کیا جا سکتا ہے۔
جنرل ظہیر الاالسلام سے میری خصوصی نیاز مندی ہے وہ ہمیشہ بہت شفقت سے پیش آتے ہیں۔ کانفرنس کے اختتام پر انہیں مشورہ دیا کہ آبادی کے سمپوزیم میں جس طرح سپریم کورٹ میں مولانا طارق جمیل کو دینی حوالہ سے اس اہم موضوع پر دعوت خطاب کے لیے بلایا گیا تھا اسی طرز پر وزیراعظم اورچیف جسٹس کو مشورہ دیں کہ وہ پانی کے معاملہ پر بھی ایک سمپوزیم منعقد کروائیں اور علماء کرام اور ماہر زراعت سے خصوصی تقاریر کروا کر سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اس کی بھرپور تشہیر کرائی جائے تو بہت بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔ میں سی جی ایس ایس کو مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے بروقت کانفرنسز منعقد کروا کر اس اہم موضوع کو زیر بحث لائے۔ اور نہایت قیمتی تجاویز مرتب کروائیں۔ اب حکومت پر ہے کہ وہ اس سے کس قدر فائدہ حاصل کر سکتی ہے۔