اولڈ راوین ہونا ایک اعزاز ہے۔ اس سے لوگوں کا راوین ہونا یاد آتا ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے نسبت ایک بڑی نسبت ہے۔ ایلومنائی ان لوگوں کو کہتے ہیں جو کبھی پنجاب یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ تھے۔ یہاں سے فارغ التحصیل ہیں۔
یہ ایک نمایاں تقریب تھی۔ اس کے لئے وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر نیاز احمد اختر نے بہت کوشش کی۔ مجھے برادرم شبیر سرور اور خرم شہزاد پی آر او نے فون کیا۔ بہت لوگوں نے خطاب کیا اور پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ اپنی رفاقتوں کو یاد کیا۔ صدارت سابق وائس چانسلر ڈاکٹر رفیق نے کی۔ ہر شخص نے اتنے جذبے سے بات کی کہ جیسے وہ واحد ایلومنائی یہاں تھا۔
نجانے کیوںکوئی وی ۔ سی نہ آیا۔ ڈاکٹر مجاہد کامران کو یہاں ہونا چاہئے تھا۔ کوئی صدر سٹوڈنٹس یونین نہ تھا۔ حفیظ خان تھا۔ اس نے خطاب بھی کیا۔ اس کے علاوہ کئی دوستوں نے تقریر کی۔ حامد میر نے بڑی دلچسپ باتیں کیں۔ کئی لوگوں نے ہمارے دوست وارث میر کو بھی یاد کیا۔ وہ یونیورسٹی میں بہت بھرپور طریقے سے رہے۔ تقریر میں خوبصورت اشعار پڑھنے کی ابتدا راجہ منور نے کی۔ خطاب کرنے والوں میں جسٹس ناصرہ جاوید اقبال، جسٹس علی اکبر قریشی، پہلی پاکستانی پی ایچ ڈی ڈاکٹر مریم ظہور، مجیب الرحمن شامی، راجہ منور، امجد اسلام امجد، توقیر ناصر، الطاف حسن قریشی، قاضی آفاق، قمرالزمان کائرہ، ریاض فتیانہ، فرید پراچہ، غلام عباس، جی اے صابری، ڈاکٹر راغب نعیمی، ڈاکٹر مہدی حسن، حفیظ اللہ نیازی، سجاد میر، سلمان غنی، ڈاکٹر محبوب حسن، ڈاکٹر نجمہ نجم، اشفاق احمد خاں آئی جی جیل خانہ جات، ڈاکٹر نوشینہ ، مجاہد منصوری، شبیر سرور،خرم شہزاد نے اپنی اپنی بات کی۔ اسرار چشتی نے سُر کی نسبتوں سے آشنا کیا۔ شاید یہ اسرار سُر کی جمع ہے۔ حنا نصراللہ نے بھی آواز کا جادو جگایا۔
بہت بھرپور خوبصورت اور جامع انداز میں کمپیئرنگ ڈاکٹر فوزیہ ہادی علی نے کی ، جیسے وہ ہر بولنے والے سے واقف تھیں۔ کمپیئرنگ ایک طرح سے بولنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔ کسی کو سٹیج پر بلائیں جیسے وہ سب کو فتح کر لے گا۔ کمپیئر کو بار بار سٹیج پر آنا پڑتا ہے۔ وہ دوستوں سے مخاطب ہوتا ہی رہتا ہے۔
وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر نیاز احمد اختر اس محفل میں ایک زندہ تر شخصیت تھے۔ لگتا تھا کہ جتنی خوشی تقریب کی کامیابی کی انہیں ہے کسی کو نہیں۔ جیسے کئی زمانے ایک ساتھ واپس آ گئے ہوں۔ مجھے ایک دفعہ انہوں نے کہا تھا کہ میں کچھ مختلف کچھ نیا کچھ جاوداں کچھ الگ سا یونیورسٹی میں کرنا چاہتا ہوں۔ میرٹ کا فروغ میری پہلی ترجیح ہے۔ اس کے علاوہ میرا جو خواب ہے وہ ترجیحات سے بھرا ہوا ہے۔ اللہ کرے نیاز صاحب دیر تک پنجاب یونیورسٹی میں رہیں اور کچھ نہ کچھ یہاں ہوتا رہے ، جسے دیر تک یاد رکھا جائے۔ شبیر سرور نے بتایا کہ مجید نظامی مرحوم ہوتے تو سب سے نمایاں ہوتے اور اس تقریب کی اہمیت زیادہ ہو جاتی۔
کئی لوگ چالیس برس بعد ایک دوسرے سے ملے۔ یہ موقعہ بار بار نہیں آتا۔ مگر اب ایسے مواقع بار بار آتے رہیں گے۔ تقریریں اُردو میں ہوئیں مگر تقریب کی کمپیئرنگ انگریزی میں ہوتی رہی۔ جرأت مند اور نفاذ اُردو کے لئے ایک موثر تحریک چلانے والی فاطمہ قمر سٹیج کی طرف آئی اور کہا کہ تقریب کی کارروائی بھی قومی زبان اُردو میں ہونی چاہیے‘ اس سے ایک سناٹا پوری محفل میں چھا گیا۔ فاطمہ قمر نے شاید وی ۔ سی صاحب کو بھی مخاطب کیا۔ تقریب کی کارروائی اس کے بعد بھی انگریزی میں چلائی جاتی رہی۔ جب کمپیئرنگ انگریزی میں ہو تو تقریر بھی انگریزی میں ہوتی ہے مگر شاید مقررین نے اس روایت کو ٹھکرا دیا تھا۔ ڈاکٹر فوزیہ کمپیئرنگ کے بعد جب اپنی سیٹ پر آتی تو اُردو میں بات کرتی تھی۔ کمپیئرنگ اس نے بہت سلیقے سے کی۔ وہ اگر اُردو میں کمپیئرنگ کرتی تو بھی پوری طرح کامیاب رہتی۔ انگریزی بولتے ہوئے عورتیں اچھی لگتی ہیں مگر وہ اُردو بولیں تو بھی اچھا لگتا ہے بلکہ وہ انگریزی بولتے ہوئے دیکھنے میں اچھی لگتی ہونگی۔ اُردو بولیں تو سارا ماحول اپنا اپنا لگتا ہے۔ ڈاکٹر نیاز احمد اہتمام کریں کہ آئندہ کمپیئرنگ بھی اُردو میں ہو۔ وہ قومی روایات کے بھی دلدادہ ہیں۔
٭٭٭٭٭
’’حکمت بالغہ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ میرے پاس آتا ہے۔ مدیر سول انجینئر مختار فاروقی ہیں۔ میں اُن سے کیا سوال کروں؟ انجینئر کا لفظ اپنے نام کے ساتھ آخری عمر میں ڈاکٹر انور سدید نے شروع کیا تھا۔ عام لوگ سوچتے ہونگے کہ ادیب و شاعر ہونے کے لئے انجینئر ہونا کیوں ضروری ہے۔ یہ رسالہ لاہور سے اور ایک شہر جھنگ سے شائع ہوتا ہے۔ اس میں مختلف تحریریں توجہ کو مبذول کرتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر ضلع میں اس ادبی روایت پر توجہ دینا چاہئے۔
٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024