لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب بھر کی مساجد اور مزارات کے وضو کا پانی پودوں کو دینے کا حکم بھی جاری کیا۔ فاضل عدالت نے گزشتہ روز متعدد درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ صاف پانی کو محفوظ بنانے کے خاطرخواہ اقدامات نہیں کئے جارہے۔ پانی زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے اور اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا کہ لوگ پانی بے دریغ ضائع کرتے ہیں اور بل بھی ادا نہیں کرتے۔
یہ حقیقت ہے کہ آنیوالے چند سال تک پانی ہی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہوگا کیونکہ جس تیزی کے ساتھ زیرزمین پانی کی سطح نیچے کو جارہی ہے‘ اگر پانی کو محفوظ کرنے کی کوئی تدبیر نہ کی گئی تو پورے ملک میں قحط سالی کا عفریت ناچتا نظر آئیگا۔ اس تناظر میں پانی کو محفوظ کرنا صرف پنجاب کی نہیں‘ پورے ملک کی ضرورت ہے جس کیلئے حکومتی سطح پر آگاہی کی مؤثر مہم چلانا ضروری ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے تو اپنے منصب پر فائز ہونے کے ساتھ ہی عوام کو پانی کی ممکنہ قلت کے خطرات سے آگاہ کرنا شروع کردیا تھا جس کیلئے آبی ماہرین کی چشم کشا رپورٹیں بھی پیش کی جاچکی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں پانی کی قدر و قیمت کا احساس ہی اجاگر نہیں ہوسکا اور آج بالخصوص شہروں میں پانی کو بے دریغ ضائع کرنا ہماری عادت ثانیہ بن چکی ہے۔ آج ایک ایک گھر میں دس دس باتھ روم موجود ہیں‘ جہاں پانی کے ضیاع کا کوئی شمار ہی نہیں۔ اسی طرح ہم گاڑیوں کو دھونے پر بھی پینے کا صاف پانی بے دریغ ضائع کرتے ہیں جبکہ زیرزمین پانی کی سطح ایک مقررہ حد تک برقرار رکھنے کیلئے قدرت کے نظام کے ساتھ مربوط درختوں کو بھی بے حد و حساب کاٹنے سے دریغ نہیں کیا جاتا نتیجتاً آج زیرزمین پانی کی سطح ایک ہزار فٹ تک نیچے چلی گئی ہے۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو بلامبالغہ آئندہ چند سال میں ہم ایتھوپیا اور صومالیہ والے حالات سے دوچار ہو جائینگے۔ اگر اس صورتحال کو درمندی کے ساتھ محسوس کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کے فاضل جج مسٹر جسٹس علی اکبر قریشی نے صاف پانی کا ضیاع روکنے کے پیرامیٹرز متعین کئے ہیں تو ہمیں اس پر سختی سے کاربند ہونا چاہیے۔ بصورت دیگر پچھتاوے کے سوا ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آئیگا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024