ہنسنا کیا ہم تو کھل کر رو بھی نہیں سکتے۔ نواز شریف کا صحافی سے احتساب عدالت کے باہر مکالمہ
برسوں پہلے کی بات ہے‘ بے مثال اداکارہ رانی کی کھڑکی توڑ رش لینے والی فلم ’’انجمن‘‘ کا شہرہ تھا۔ گلی کوچوں میں اس کے گیت گونجتے تھے جن میں فلم کا آخری ’’ٹائٹل سونگ‘‘ جو نور جہان نے گایا تھا …؎
؎اظہار بھی مشکل ہے چپ رہ بھی نہیں سکتے
مجبور ہیں اف اللہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے
پورے ملک میں زبان زدعام تھا۔ گزشتہ روز میاں جی کا صحافی سے مکالمہ بھی کچھ اس قسم کی کیفیت کی عکاسی کرتا نظر آ رہا ۔ بس اضافہ اتنا کرنا پڑے گا کہ…ع
’’گھٹ کے مر جائوں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے‘‘
سچ پوچھیں تو میاں نواز شریف کے چہرے پرویسے بھی مسکراہٹ کم نظر آتی تھی۔ دوست احباب کی محفلوں میں یا سیاسی میٹنگوں میں وہ لطیفوں اور شعروں پر البتہ خوب مسکراتے داد دیتے نظر آتے تھے۔ اس لئے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا تھا کہ میاں جی خوش ہیں یا ناراض۔ اب موجودہ حالات میں بھی میاں جی کے چہرے پر وہی اُداسی خاموشی دور سے ہی نظر آنے لگتی ہے جبکہ کم از کم ایسے ہی حالات میں سابق صدر آصف زرداری پوری بتیسی نکال کر مسکراتے ہوئے عدالت میں آتے اور جاتے ہیں۔ کیا پتہ وہ جان بوجھ کر خوف مٹانے کی کوشش کرتے ہوں۔ میاں جی کو بھی ہر حال میں مسکراتے رہنا چاہئے۔ یہ زندگی ہے ہی کبھی خوشی کبھی غم کا نام۔ ان کا یہ گلہ بے جا ہے کہ اب تو رونے پر بھی پابندی ہے۔
٭…٭…٭
ایم این اے افضل کھوکھر اور افضل ڈھانڈلہ کی گاڑیوں سے 13 درجن انڈے برآمد
یہ معزز ارکان قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لئے پارلیمنٹ جا رہے تھے کہ پولیس نے تلاشی لے کر ان کی گاڑیوں سے انڈے برآمد کئے۔ یہ دونوں ارکان اسمبلی جن میں ایک مسلم لیگ ن کے افضل کھوکھر ہیں‘ ان سے 3 درجن جبکہ تحریک انصاف کے افضل ڈھانڈلہ سے 10 درجن انڈے برآمد ہوئے۔ اگر انڈوں کی یہ کمک اسمبلی میں پہنچ جاتی تو دوران بحث دونوں جماعتوں کے ارکان ایک دوسرے کو انڈے مارتے یوں 13 درجن انڈے ضائع ہونے سے ملکی معیشت کا بے تحاشہ نقصان ہوتا۔ یہ تو شکر ہے پولیس نے قومی اسمبلی کو انڈوں کا میدان جنگ بننے سے روک لیا۔ اس وقت ہماری ملکی معیشت کی ترقی کا دارومدار انڈوں ، مرغیوں کے نازک کاندھوں پر ہے۔ انہی کی بدولت بہت جلد ہمارا ملک تمام معاشی مشکلات سے چھٹکارہ پا سکتا ہے۔ اس لئے ہم کسی ایسی انڈہ جنگی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ بس ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ اگر ہمارے معاشی مسائل کا حل یہی انڈے ا ور مرغیاں ہیں تو سردیوں میں گلی محلوں میں بازاروں میں یہ جوکم سن بچے اور بابے ’’گرم آنڈے‘‘ کی آواز لگا لگا کر فروخت کر رہے ہوتے ہیں ان کی حالت آج تک بہتر کیوں نہیں ہوئی۔ معلوم نہیں اس کے پیچھے انڈوں کے مہنگے ہونے کا ہاتھ ہے یا مرغیوں کا ۔جو اب انڈے دینے اور ان کو سینے کی بجائے زیادہ تر روسٹ بن کر لوگوں کے دستر خوانوں کی زینت بنی نظر آتی ہے۔
لاہور میں 2 تا 5 گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے شہری پریشان
اب یہ اتفاق ہے یا حالات کی ستم ظریفی کہ جب سے نئی حکومت آئی ہے لاہور والوںکے لئے حکمرانوں کی بے اعتنائی میں اضافے کے افسانے بھی دھیرے دھیرے تھڑوں سے اُٹھ کر نجی محفلوں اور سیاسی و سماجی ڈیروں پر سنے جانے لگے ہیں۔ اب ان میں سو فیصد نہ سہی کچھ نہ کچھ تو سچائی ہو گی ہی۔ بات ویسے ہی تو نہیں بنتی کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے۔ اس وقت موسم بھی سازگار ہے ۔ بجلی کی کھپت بھی کم ہے کیونکہ سردیاں شروع ہوچکی ہیں ۔اس موسم میں گیس کی لوڈشیڈنگ کا صدمہ تو عوام کہیں چپ چاپ سہتے ہیں اور کہیں کہیں توے، چمٹے، ہانڈیاں اور چمچے اُٹھا کر سڑکوں پر شور مچا کر دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ سو یہ سب کچھ دسمبر تا مارچ چلتا رہتا ہے۔ گیس کی آنیاں جانیاں ا ور آنکھ مچولی جاری رہتی ہے۔ مگر اس موسم میں بجلی کی لوڈشیڈنگ یہ تویک نہ شُد دو شُد والی بات ہے اور سمجھ سے باہر بھی۔ یہ تو لاہور والوں کو ستانے کی سازش معلوم ہوتی ہے۔ لاہور کے اکثر علاقوں میں 2 تا 5 گھنٹے بجلی کا غائب ہونا معلوم نہیں سزا ہے یا جزا۔ لاہورئیے تو بڑی سے بڑی بات ہنسی میں اُڑا دیتے ہیں۔ رنج و غم کو پاس نہیں آنے دیتے مگر وہ بھی اورنج لائن کی تکمیل میں تاخیر پر زود رنج سے ہو گئے ہیں اور ذرا سی بات پر فوراً پھٹ پڑتے ہیں اور نزلہ نئی حکومت پر گراتے ہیں۔ اب بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سارا نزلہ بھی حکومت پر ہی گرے گا۔ بہتر ہے حکومت خود ہی اس کا کوئی حل نکالے ورنہ لاہوریوں کو ووٹ نہ دینے کی سزا والی بات حقیقت میں بدلتے دیر نہیں لگے گی۔
٭…٭…٭
بلوچستان میں اساتذہ کی ہڑتال ، احتجاج اور بائیکاٹ پر ایک سال سزا 5 لاکھ جرمانے کا فیصلہ
بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی لگا کر وہاں تعلیمی نظام اور معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس لئے وہاں ایسے فیصلے کو عوام بھی پسند کریں گے۔ صوبہ بلوچستان معاشی پسماندگی کے ساتھ ساتھ تعلیمی میدان میں بھی سب سے پسماندہ ہے۔ مگر اس کے باوجود وہاں کسی کو پرواہ نہیں۔ جہاں گھوسٹ سکولز اور گھوسٹ اساتذہ کی تعداد سینکڑوں اور ہزاروں میں ہے۔ اسی صوبے میں سینکڑوں سکول ویران پڑے ہیں۔ عمارتیں موجود ہیں مگر معلم یا طالب علم موجود نہیں۔ ہاں تنخواہیں سب کو باقاعدگی سے مل رہی ہیں۔ بے شمار اساتذہ کی ڈگریاں جعلی۔ ہزاروں اساتذہ خود پوری طرح لکھ پڑھ نہیں سکتے۔ یہ سب سفارش سے بھرتی ہوئے ہیں۔ سکول جانا ان کے مزاج میں شامل نہیں۔ تنخواہ لینا البتہ یہ کارِ ثواب سمجھتے ہیں۔ ذرا ان پر ہاتھ ڈالیں تو یہ بائیکاٹ، ہڑتال اور احتجاج پر اُتر آتے ہیں۔ جتنا زور یہ ان کاموں پر لگاتے ہیں اگر تعلیم پر لگاتے تو آج صوبے کی یہ حالت نہ ہوتی۔ بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی اور اساتذہ کے ہڑتال و بائیکاٹ پر پابندی کا فیصلہ اب جلد نافذ بھی ہو جانا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی تمام اساتذہ کا امتحان لے کر ان کی قابلیت اور ڈگری کی حقیقت بھی معلوم کی جائے تو بڑے بڑے انکشافات سامنے آ سکتے ہیں، جن کے اظہار کا یارا نہیں ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024