سیاست سے مرادہے وہ شعبہ علم (سائنس) جو انسانی نظام باہمی سے متعلق ہے۔ عبداللہ حسین نے اپنے ناول ’’نادار لوگ‘‘ میں لکھا کہ ’’سیاست میں لوگ کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں اور ہم لوگوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھائے رکھتے ہیں۔ ہم لوگ چار پیسے کما کر انکے مقابلے پر نہیں آ سکتے۔ انکا سامنا کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انکے طور طریقے اپناؤ۔ ان کو پچھاڑنا ہے تو سیاست کی مار مارو‘‘ جہاں تک ریاست کا تعلق ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ’’وزیر اعظم عمران خان مدینہ کی ریاست قائم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اس خواب اور تصور میں عدلیہ شانہ بشانہ ہے اور نیک نیتی سے وزیر اعظم کے اس خواب کی تعبیر کو پانے کی کوشش کریں گے‘‘ مولانا طارق جمیل نے کہا کہ ’’عمران خان پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے مدینہ کی فلاحی ریاست کا تصور پیش کیا ہے۔ مدینہ کی فلاحی ریاست کا تصور پیش کرنے پر عمران خان کو سلام پیش کرتا ہوں۔ نظامِ عدل کی مضبوطی ہی سے امن کی ریاست بنتی ہے‘‘ حضور نبی اکرمؐ کی زندگی میں اسلامی ریاست قائم ہو گئی تھی جس کے سربرا ہ خود رسولؐ اللہ تھے۔ اس ریاست کا قیام محض ایک اتفاقی امر یا حالات کا پیدا کردہ نہیں تھا۔ اسلام کو ایک زندہ اور عملی حقیقت بنانے کیلئے اپنی آزاد مملکت کا وجود لاینفک ہے اس لیے اس ریاست کا قیام فریضۂ رسالت تھا۔ دین اسلام ایک اجتماعی نظام زندگی کا نام ہے جس میں قوانین خداوندی کی اطاعت کی جاتی ہے۔ نبی اکرمؐ کے زمانے میں اسلامی ریاست قریب دس لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی۔ اسلامی نظام کی اساس اس اصلِ عظیم پر قائم ہے کہ دنیا میںکسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ دوسرے انسان سے اپنا حکم منوائے۔ حکومت کا حق صرف خدا کو ہے۔ اسکے سوا کسی کی محکومیت جائز نہیں۔ جب ہم نے یہ تسلیم کر لیا کہ حکومت کا حق خدا کو حاصل ہے اور اسکے سوا کسی کی محکومیت جائز نہیں تو یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ خدا کے احکام کہاں سے ملیں گے جن کی اطاعت کا نام اس کی محکومیت قرار دیا گیا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ خدا ہر انسان سے براہ راست باتیں نہیں کرتا اس لیے اسکے احکام ہر انسان کو فرداََ فرداََ نہیں ملتے۔ یہ احکامات بذریعہ وحی انسانوں تک پہنچائے گئے۔ پہچانے والے کو رسول کہتے ہیں۔ ان احکام کے مجموعہ کا نام کتاب اللہ ہے۔ یہ قوانین اب اصلی شکل میں قرآن کریم کے اندر ہیں۔ لہذٰا یہ کتاب اب حکومتِ خداوندی کا ضابطہ ہے۔ قوانین خداوندی بھیجے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ وہ انسانوں کے اختلافی امور میں قولِ فیصل ہوں۔ نظام حکومت کے قیام کے بعد سب سے پہلا اجتماع عظیم (حج اکبر) ہوا تو اس میں اس حکومت کی طرف سے کچھ عام اعلانات کئے گئے جن میں بتایا گیا کہ اس حکومت کی پالیسی اور امور خارجہ میں مسلک کیا ہو گا۔ اس ضمن میں سب سے پہلا اعلان کیا گیا۔ اسکے الفاظ یہ تھے۔ ’’اے پیروانِ دعوتِ ایمانی! جن مشرکوں کے ساتھ تم نے صلع و امن کا معاہدہ کیا تھا اب ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بری الذمہ ہونے کا اعلان ہے‘‘
مدینہ کی جس ریاست کو قائم کرنے کا کہا جاتا ہے اس کی غایت یہ ہے کہ دنیا سے اس ظلم عظیم کو مٹا کر ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں ہر انسان کی فطری صلاحیتوں کو ابھرنے، بڑھنے، پھلنے پھولنے کا پورا پورا موقع ملے۔ اسی کو وہ عدل کہتا ہے۔ چناں چہ وہ نبی کریمؐ کی بعثت کا مقصد ہی یہ قرار دیتا ہے کہ آپؐ ان زنجیروں کو توڑیں گے جن میں انسانیت جکڑی ہوئی چلی آ رہی تھی اور ان بوجھوں کو اتار پھینکیں گے جن کے نیچے اس کی صلاحیتیں دبی ہوئی تھیں۔ حضور ختمی مرتبتؐ ایک وسیع و عریض سلطنت کے سربراہ تھے لیکن سادگی کا یہ عالم ہے کہ اپنا جوتا آپ مرمت کر رہے ہیں۔ ایک صحابی عرض کرتے ہیں کہ حضورؐ لائیے میں ٹانک دوں تو فرماتے ہیں کہ یہ خود پسندی ہے جو مجھے پسند نہیں۔ گھر میں اپنے کام کاج خود کرتے تھے۔ مسجد قبا اور مسجد نبویؐ کی تعمیر اور خندق کے کھودنے میں عام مزدوروں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ دوستوں کی مجلس میں دعوت کا سامان تھا، سب نے کام بانٹ لیے، آپؐ نے فرمایا کہ جنگل میں لکڑیاں میں لاؤں گا۔حضرت ابن ارث ایک صحابی تھے جنہیں حضورؐ نے کسی غزوہ پر بھیجا۔ ان کے گھر میں پیچھے کوئی مرد نہ تھا اور عورتوں کو دودھ دوہنا نہیں آتا تھا۔ آپؐ ہر روز ان کے گھر جاتے اور دودھ دوہ آیا کرتے۔ایک مرتبہ صحابہؓ نے اس خیال سے کہ باہر سے آنے والوں (بالخصوص دوسری سلطنت کے سفیروں) کو حضورؐ کے پہچاننے میں دقت ہوتی ہے۔ آپؐ کے بیٹھنے میںذرا سی اونچی نشست بنادی تو حضورؐ سخت برافروختہ ہوئے اور اسے فوراََ گرا دیا۔ تخاطب میں بھی کوئی امتیازی لقب پسند نہ فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک شخص خدمتِ نبویؐ میں حاضر ہوا تو نبوت کے رعب سے کانپنے لگا۔ آپؐ نے فرمایا کہ گھبراؤ نہیں! میں فرشتہ نہیں ہوں، کوئی مافوق الفطرت ہستی نہیں ہوں۔ ایک قریشی عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت پکا کر کھایا کرتی تھیں۔ بخاری میں روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں ایک انسان ہوں۔ میرے سامنے مقدمات آتے ہیں تو ایک فریق دوسرے فریق سے اپنے مدعا کو بہتر طریقہ پر ادا کرنے والا ہوتا ہے جس سے گمان ہو جاتا ہے کہ وہ سچا ہے اور میں اسکے حق میں فیصلہ دے دیتا ہوں لہذٰا اگر کسی شخص کو اس فیصلے کیمطابق اپنا حصہ نہیں بلکہ دوسرے بھائی کا حصہ ملتا ہے۔ تو وہ سمجھ لے کہ وہ آگ کا ٹکڑا ہے۔ اب خواہ (قانونی استحقاق کیمطابق) اسے لے لے خواہ (بنا برتقویٰ) اسے چھوڑ دے۔
یہ تھی ریاست مدینہ۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024