دسمبر میں وفات پانے والی اہم شخصیات میں ابوالاثر حفیظ جالندھری، منیر نیازی، استاد دامن، پطرس بخاری، ظہیر کاشمیری، اے جی جوش، نسیم سوہدروی، عمر فیضی، سجاد حیدر، خلیل آتش اور عبیر ابوذری شامل ہیں۔ان میں منیر نیازی، استاد دامن، ظہیر کاشمیری، اے جی جوش، سجاد حیدر اور عبیر ابوذری سے قریبی تعلق رہا البتہ ابوالاثر حفیظ جالندھری سے دو تین ملاقاتیں رہیں۔حفیظ جالندھری کو 1988ءمیں کارکن تحریک پاکستان گولڈ میڈل دیا گیا۔ اس کے علاوہ ہلالِ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ آپ کا انتقال 21 دسمبر 1982ءکو ہوا۔ تدفین اولاً ماڈل ٹاﺅن کے قبرستان میں ہوئی۔ 27 ستمبر 1991ءکو آپ کے جسد خاکی کو مقبرہ خاص نزد مینار پاکستان منتقل کیا گیا۔ پروفیسر حمید کوثر ان کے لے پالک بیٹے تھے۔ پروفیسر صاحب اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں میرے اردو کے استاد رہے۔ پروفیسر حمید کوثر نہ صرف معروف شاعر بلکہ اعلیٰ پائے کے نقاد اور ادیب بھی تھے۔ حمید کوثر صاحب کی پیدائش بھی جالندھر کی تھی۔ انہوں نے حفیظ جالندھری کی شاگردی اختیار کی اور حفیظ صاحب نے پروفیسر صاحب کو اپنی علمی میراث کا وارث قرار دیا۔ڈاکٹر اجمل نیازی نے لکھا تھا کہ ”حضرت حفیظ نے حمید کوثر کو بیٹا بنایا اور اس رشتے کو نبھایا بھی مگر عقیدت کے جس مرتبے پر ان کے لئے حمید کوثر کھڑے دکھائی دیتے ہیں اس کے سامنے حضرتِ حفیظ کا یہ احساس بھی فخر کر سکتا ہے۔ جتنا انہوں نے حفیظ کے بارے میں لکھا اور جذبے کی جس آخری منزل پر جا کے لکھا وہاں تک کوئی دوسرا کیسے پہنچ سکتا ہے۔ میں نے تو یہ دیکھا ہے کہ لوگ عقیدے کو عقیدت میں تبدیل کر لیتے ہیں مگر حمید کوثر نے حضرت حفیظ کے ساتھ اپنی عقیدت کو عقیدہ بنا لیا تھا“ پروفیسر حمید کوثر کے مشن کو اب ان کا بیٹا مجید غنی جاری رکھے ہوئے ہے۔ صادق آباد میں مقیم میرے بہت ہی اچھے دوست معروف شاعر اور ادیب بشیر بیتاب کی پیدائش بھی جالندھر میں ہوئی۔ اس حوالے سے ان کا بھی حفیظ جالندھری سے قریبی تعلق رہا۔ بشیر بیتاب اپنی سوانح حیات ”دوآبہ سے مہران اور پنجند تک“ میں لکھتے ہیں ”حفیظ جالندھری صاحب نے مجھے اپنا چھوٹا بھائی کہا اور پھر زندگی بھر مجھے چھوٹا بھائی ہی کہتے رہے۔ اس ناتے وہ نومبر 1974ءکو میرے پاس صادق آباد تشریف لائے۔ ان کی یہ شفقت تھی کہ میرے ہاں ہفتہ بھر قیام کیا۔ ان کے صادق آباد تشریف لانے پر ہمارے علاقہ کے بہت بڑے جاگیردار اور پیر مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ جیلانی ایم این اے اور سابق وزیر ریاست بہاولپور نے فون پر حضرت حفیظ صاحب کو دعوت دی کہ ایک دن دوپہر کا کھانا میرے پاس کھائیں مگر جناب حفیظ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں بشیر بیتاب کا مہمان ہوں، ان کے بغیر کہیں نہیں جاﺅں گا۔ سر میدان مخالفوں کو للکارنے والا حفیظ بے خوف اور بے دھڑک انسان، ایسے بلند پایہ انسان صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔“منیر نیازی کا انتقال 26 دسمبر کو ہوا۔ وہ ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ اپنی طلسماتی شاعری اور جادوئی شخصیت کے ذریعے وہ پاکستان ہی میں نہیں غیر ممالک میں بھی لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرتے رہے۔ مشاعرہ ہوتا یا ادبی محفل، خاص نشست ہو یا عام منیر نیازی کی موجودگی انہیں منفرد بنا دیتی۔میں نے ان کی یادداشتیں ریکارڈ کی تھیں جو سات قسطوں میں ایک اخبار میں شائع ہوئیں۔پنجابی کے عوامی شاعر استاد دامن 3 دسمبر 1984ءکو فوت ہوئے۔ استاد دامن کے حجرے میں تقریباً چودہ برس جاتا رہا۔ استاد دامن کا کہنا تھا کہ اس حجرے میں پنجابی کے عظیم صوفی شاعر شاہ حسینؒ نے چِلّا کیا تھا۔ استاد دامن نہ صرف بے مثل شاعر تھے بلکہ ان کی گفتگو بھی عالمانہ ہوتی۔ استاد دامن کو ہیر وارث شاہ بہت پسند تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہیر وارث شاہ جیسی کتاب میری نظر سے نہیں گزری۔محترم مجید نظامی صاحب نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وارث شاہ کی ہیر اور استاد دامن کی شاعری آسانی سے پڑھی جا سکتی ہے۔انقلابی شاعر ظہیر کاشمیری سے بھی میرا قریبی تعلق رہا۔ آپ 12 دسمبر 1994ءکو فوت ہوئے۔ معروف رائٹر، براڈ کاسٹر سجاد حیدر سے متعدد ملاقاتیں رہیں۔ آپ کا انتقال 6 دسمبر 1996ءکو ہوا۔ سجاد حیدر صاحب ریڈیو پاکستان کے کنٹرولر رہے۔اے جی جوش مجھے اپنا چھوٹا بھائی کہتے تھے وہ 14 دسمبر 2007ءکو فوت ہوئے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024