مکرمی! مےں آپ کے موقر جریدہ کے ذریعہ حکومت اور عوام الناس کے علم مےں یہ بات لانا چاہتی ہوں کہ جب سے وطن عزیز خودکش حملوں کی زد مےں آیا ہے تمام پرنٹ / الیکٹرانکس میڈیا اور حکومتی ادارے خودکش حملہ آوروں کو طالبان کہتے ہےں حالانکہ طالبان طالب کی جمع ہے اور اس کے لغوی معنی کسی بھی چیز بالخصوص علم حاصل کرنے کی جستجو ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک معصوم انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔اس لئے طالبان دہشت گرد نہیں ہو سکتے اور نہ ہی دہشت گردوں کو طالبان کہہ کر پکارا جائے، یہ کافر ہےں اور فتنہ و فساد فی الارض پھیلا رہے ہےں۔ ”اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس مےں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کےلئے تیار کر رکھا ہے بڑا عذاب اے ایمان والو“ (سورة 4 آیت نمبر 93) ہمیں متحد ہو کر ان سفاک اور خونخوار درندوں کا ہر سطح پر مقابلہ کرنا ہوگا۔ عوام کو اپنے اپنے علاقوں مےں رضا کارانہ طور پر تمام عبادت گاہوں‘ صحت گاہوں اور درسگاہوں پر نگاہ رکھنی ہوگی اور یہ معلوم کرنا ہوگا کہ عبادات‘ علاج معالجہ اور علم کے حصول مےں کوئی کوتاہی یا ملاوٹ تو نہیں ہو رہی اور ہمیں مشکوک اور نووارد اشخاص کی جانچ پڑتال کرنی ہے۔ اس طرح دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے۔
امریکہ نے ہمیں گذشتہ کئی سالوں سے افغانستان کی جنگ مےں ملوث کر کے ہم پر یہ دہشت گردی کی بلا نازل کی ہوئی ہے۔ ہم اپنی جغرافیائی سرحدوں اور داخلی مسائل کے حل کے متحمل اور ذمہ دار ہےں اور ہمیں اپنی نظریاتی سرحدوں کا بھی تحفظ کرنا ہے۔ افغانستان مےں امریکہ کی جنگ ہم پاکستانی نہیں لڑ سکتے۔ ”Let them do more“
(ناصرہ اقبال، صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، لاہور)
امریکہ نے ہمیں گذشتہ کئی سالوں سے افغانستان کی جنگ مےں ملوث کر کے ہم پر یہ دہشت گردی کی بلا نازل کی ہوئی ہے۔ ہم اپنی جغرافیائی سرحدوں اور داخلی مسائل کے حل کے متحمل اور ذمہ دار ہےں اور ہمیں اپنی نظریاتی سرحدوں کا بھی تحفظ کرنا ہے۔ افغانستان مےں امریکہ کی جنگ ہم پاکستانی نہیں لڑ سکتے۔ ”Let them do more“
(ناصرہ اقبال، صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، لاہور)