بلیک واٹر عراق و افغانستان کے اندر انتہائی حساس کارروائیوں میں حصہ لے رہی ہیں : امریکی اخبار
نیویارک (نمائندہ خصوصی) امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق بلیک واٹر تنظیم کے گارڈز عراق اور افغانستان میں سی آئی اے کے افسروں کو سکیورٹی فراہم کرنے کے اپنے اصل فرائض سے تجاوز کرتے ہوئے خفیہ ایجنسی کی انتہائی حساس نوعیت کی کارروائیوں میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔ ان کارروائیوں میں عراق اور افغانستان کے اندر مشتبہ عسکریت پسندوں پر حملے اور قیدی بنائے جانیوالے افراد کی منتقلی بھی شامل ہے۔ اخبار نے بلیک واٹر کمپنی کے سابق ملازمین اور انٹیلی جنس حکام کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ عراق میں 2004ء اور 2006ء کے درمیان القاعدہ عسکریت پسندوں پر رات کے وقت ایسے حملے ایک معمول رہے ہیں۔ اخبار کے مطابق بلیک واٹر اور سی آئی اے کے درمیان شراکت داری اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے جس کا سرکاری طور پر اظہار کیا گیا ہے اور یہ شراکت داری اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے جس کا سرکاری طور پر اظہار کیا گیا ہے اور یہ شراکت داری کمپنی کیلئے انتہائی منافع بخش ثابت ہوئی ہے۔ سی آئی اے کے ایک اہم سابق عہدیدار نے اخبار کو بتایا کہ دونوں کے درمیان شراکت داری اب انتہائی برادرانہ تعلقات میں ڈھل گئی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بلیک واٹر سی آئی اے کا ہی ایک اضافی ادارہ بن چکا ہے۔ سی آئی اے کے ترجمان جارج ٹسل نے رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا جبکہ بلیک واٹر کے ترجمان نے کہا کہ کمپنی کے ساتھ کبھی ایسا معاہدہ نہیں ہوا کہ وہ عراق‘ افغانستان یا کہیں بھی سی آئی اے کے خفیہ آپریشنوں میں حصہ لے گی۔ ادھر ایوان نمائندگان کی سلیکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے ڈیموکریٹک چیئرمین رش ہولٹ نے اخبار سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ انٹیلی جنس اور پیراملٹری آپریشنز میں بلیک واٹر کے اہلکاروں کا استعمال ایک سکینڈل ہے جس کی جانچ پڑتال کی جائیگی۔ واضح رہے کہ اخبار نے اپنی ایک گزشتہ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ سی آئی اے نے پاکستان اور افغانستان میں القاعدہ رہنمائوں کو قتل کرنے اور ڈرون حملوں کیلئے بھی بلیک واٹر کا تعاون حاصل کیا ہے۔ نارتھ کیرولینا سے تعلق رکھنے والی یہ کمپنی اب ایکس ری سروسز کے نام سے کام کررہی ہے۔