نصرت مرزا
پاکستان کے وزیر داخلہ رحمان ملک روز اس بات کی تردید کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان میں بلیک واٹر نام کی تنظیم کا کوئی وجود نہیں ہے لیکن پاکستان میں کوئی رحمان ملک کی بات پر یقین نہیں کرتا یہ پاکستان کی انتہائی بدقسمتی ہے کہ رحمان ملک کے قسم کے لوگ پاکستان کی حکومت میں شامل ہیں وہ داخلی امور کو بھی دیکھتے ہیں اور جو دہشت گردی کو روکنے میں ناکام ہیں ان کے اندر نہ کوئی فن ہے اور جو ہے ”منفی اور خوشامد کا فن ہے اور نہ ہی کوئی صلاحیت ہے اور انہوں نے پاکستان کیلئے کوئی قابل ذکر کام بھی نہیں کیا۔ اگرچہ ان پر کرپشن کے الزامات ہیں جن کا لندن میں گھر بھی ہے جو پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبہ سے اٹھ کر مالدار بن گئے اور اب پاکستانیوں کو غلط اطلاعات فراہم کرنے میں لگے ہوئے ہیں مگر کوئی اغوا کی دی ہوئی اطلاعات کو قابل اعتبار نہیں سمجھتا۔ صحافی ایک سے زیادہ مرتبہ خبریں پیش کر چکے ہیں کہ بلیک واٹر نام کی تنظیم کا وجود ہے اور یہ کہ موقر اخبار دی نیشن نے اس کے اسلام آباد میں ہیڈ کوارٹر کی تصویریں بھی شائع کر دی ہیں اسلام آباد میں ایک سے زیادہ مرتبہ ان کے کچھ لوگ جو مسلح تھے وہ پکڑے بھی گئے اور ان کو چھوڑ دیا گیا اسی طرح حال ہی میں لاہور میں بھی ایک ایسی گاڑی کو روکا گیا جس میں امریکی مسلح افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے آپ کو ڈپلومیٹ ظاہر کیا اور گاڑی کی ”نمبر پلیٹ بھی دکھائی جو ڈپلومیٹ کاروں میں لگی ہوتی ہے۔ انہوں نے سوال جواب کی تکرار کے بعد بتایا کہ وہ پلیٹ حفاظتی نقطہ نظر سے نہیں لگائی تھی اور پھر ان کو امریکی سفارت خانے کے نمائندوں کی آمد کے بعد چھوڑا گیا۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں کہ وہ اس طرح سے مسلح گھوم پھر رہے ہیں نہ صرف یہ بلکہ اسلحہ کی سپلائی ایک سفارت خانے سے دوسرے سفارت خانے کر رہے ہیں۔ بلکہ ہم نے خود اس بات کی اطلاع قارئین نوائے وقت کو دی تھی کہ امریکی جہاز آتے ہیں اور ان میں موجود کریٹوں کی تلاشی نہیں ہوتی اور جب اس جہاز کی تلاشی لینے کا فیصلہ کیا گیا جو اسلام آباد ائرپورٹ پر اتر گیا تھا تو دوسرا جہاز جو اس کے پیچھے اترنے والا تھا وہ زمین پر لینڈ کرنے سے پہلے واپس پرواز کر گیا اب نہ جانے اس جہاز میں کیا تھا۔ یہ صورتحال اس بات کی غماز ہے کچھ پراسرار سرگرمیاں جاری ہیں اور امریکی ایسے آلات منگوا رہے ہیں جو پاکستان کے علم میں نہیں لانا چاہتے۔ یہ سفارتی آداب کے منافی بات ہے۔ پھر یہ بات وہ صاف کہتے ہیں کہ پاکستان کے حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنی سیکورٹی کا خود انتظام کریں ہمارا یہ کہنا ہے کہ وہ ہی تنظیم جو امریکی سفارت خانے اور ان کے سفارت کاروں کی سکیورٹی کی ذمہ دار ہے اس کا اصل نام بلیک واٹر ہے پھر نام بدل کر چاہے کچھ بھی رکھ دیا جائے‘ یہ لوگ کراچی میں خیابان شمشیر ڈیفنس میں اپنا دفتر اور اڈہ قائم کر چکے ہیں اور یہ یہی لوگ کراچی میں اس راستے میں دیکھے گئے جو کراچی کی بندرگاہ سے کوئٹہ کی طرف جاتا ہے یہ ان ٹرالوں‘ ٹرکوں کی حفاظت پر معمور ہیں جو کراچی کے راستے افغانستان جاتے ہیں۔ ایسے میں وزیر داخلہ کا بیان گمراہ کن ہے اور عوام کو دھوکہ دینے اور ان کو غلط اطلاعات فراہم کرنے اور ان امریکی سکیورٹی ایجنسیوں کی سرگرمیوں پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے سوال یہ ہے کہ کیا وہ پاکستان کیلئے کام کر رہے ہیں یا امریکہ و برطانیہ کےلئے جہاں انہوں نے پاکستان سے جائز یا ناجائز طریق کی کمائی سے مہنگے علاقہ میں فلیٹ نما بنگلہ خریدا ہوا ہے جس میں راقم کو محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ سے ملنے 12 مئی 2000ءکو جانا پڑا تھا۔ (جاری ہے)
پاکستان کے وزیر داخلہ رحمان ملک روز اس بات کی تردید کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان میں بلیک واٹر نام کی تنظیم کا کوئی وجود نہیں ہے لیکن پاکستان میں کوئی رحمان ملک کی بات پر یقین نہیں کرتا یہ پاکستان کی انتہائی بدقسمتی ہے کہ رحمان ملک کے قسم کے لوگ پاکستان کی حکومت میں شامل ہیں وہ داخلی امور کو بھی دیکھتے ہیں اور جو دہشت گردی کو روکنے میں ناکام ہیں ان کے اندر نہ کوئی فن ہے اور جو ہے ”منفی اور خوشامد کا فن ہے اور نہ ہی کوئی صلاحیت ہے اور انہوں نے پاکستان کیلئے کوئی قابل ذکر کام بھی نہیں کیا۔ اگرچہ ان پر کرپشن کے الزامات ہیں جن کا لندن میں گھر بھی ہے جو پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبہ سے اٹھ کر مالدار بن گئے اور اب پاکستانیوں کو غلط اطلاعات فراہم کرنے میں لگے ہوئے ہیں مگر کوئی اغوا کی دی ہوئی اطلاعات کو قابل اعتبار نہیں سمجھتا۔ صحافی ایک سے زیادہ مرتبہ خبریں پیش کر چکے ہیں کہ بلیک واٹر نام کی تنظیم کا وجود ہے اور یہ کہ موقر اخبار دی نیشن نے اس کے اسلام آباد میں ہیڈ کوارٹر کی تصویریں بھی شائع کر دی ہیں اسلام آباد میں ایک سے زیادہ مرتبہ ان کے کچھ لوگ جو مسلح تھے وہ پکڑے بھی گئے اور ان کو چھوڑ دیا گیا اسی طرح حال ہی میں لاہور میں بھی ایک ایسی گاڑی کو روکا گیا جس میں امریکی مسلح افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے آپ کو ڈپلومیٹ ظاہر کیا اور گاڑی کی ”نمبر پلیٹ بھی دکھائی جو ڈپلومیٹ کاروں میں لگی ہوتی ہے۔ انہوں نے سوال جواب کی تکرار کے بعد بتایا کہ وہ پلیٹ حفاظتی نقطہ نظر سے نہیں لگائی تھی اور پھر ان کو امریکی سفارت خانے کے نمائندوں کی آمد کے بعد چھوڑا گیا۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں کہ وہ اس طرح سے مسلح گھوم پھر رہے ہیں نہ صرف یہ بلکہ اسلحہ کی سپلائی ایک سفارت خانے سے دوسرے سفارت خانے کر رہے ہیں۔ بلکہ ہم نے خود اس بات کی اطلاع قارئین نوائے وقت کو دی تھی کہ امریکی جہاز آتے ہیں اور ان میں موجود کریٹوں کی تلاشی نہیں ہوتی اور جب اس جہاز کی تلاشی لینے کا فیصلہ کیا گیا جو اسلام آباد ائرپورٹ پر اتر گیا تھا تو دوسرا جہاز جو اس کے پیچھے اترنے والا تھا وہ زمین پر لینڈ کرنے سے پہلے واپس پرواز کر گیا اب نہ جانے اس جہاز میں کیا تھا۔ یہ صورتحال اس بات کی غماز ہے کچھ پراسرار سرگرمیاں جاری ہیں اور امریکی ایسے آلات منگوا رہے ہیں جو پاکستان کے علم میں نہیں لانا چاہتے۔ یہ سفارتی آداب کے منافی بات ہے۔ پھر یہ بات وہ صاف کہتے ہیں کہ پاکستان کے حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنی سیکورٹی کا خود انتظام کریں ہمارا یہ کہنا ہے کہ وہ ہی تنظیم جو امریکی سفارت خانے اور ان کے سفارت کاروں کی سکیورٹی کی ذمہ دار ہے اس کا اصل نام بلیک واٹر ہے پھر نام بدل کر چاہے کچھ بھی رکھ دیا جائے‘ یہ لوگ کراچی میں خیابان شمشیر ڈیفنس میں اپنا دفتر اور اڈہ قائم کر چکے ہیں اور یہ یہی لوگ کراچی میں اس راستے میں دیکھے گئے جو کراچی کی بندرگاہ سے کوئٹہ کی طرف جاتا ہے یہ ان ٹرالوں‘ ٹرکوں کی حفاظت پر معمور ہیں جو کراچی کے راستے افغانستان جاتے ہیں۔ ایسے میں وزیر داخلہ کا بیان گمراہ کن ہے اور عوام کو دھوکہ دینے اور ان کو غلط اطلاعات فراہم کرنے اور ان امریکی سکیورٹی ایجنسیوں کی سرگرمیوں پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے سوال یہ ہے کہ کیا وہ پاکستان کیلئے کام کر رہے ہیں یا امریکہ و برطانیہ کےلئے جہاں انہوں نے پاکستان سے جائز یا ناجائز طریق کی کمائی سے مہنگے علاقہ میں فلیٹ نما بنگلہ خریدا ہوا ہے جس میں راقم کو محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ سے ملنے 12 مئی 2000ءکو جانا پڑا تھا۔ (جاری ہے)