ہمدرد مجلسِ شوریٰ ہر مہینے لاہور میں اپنا ایک ایسا اجلاس منعقد کرتی ہے جس میں قومی اور بین الاقوامی تناظر میں پاکستان کے مختلف مسائل پر غور کیا جاتا ہے چنانچہ 9 دسمبر 2009ءکو شوریٰ ہمدرد کے اجلاس نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو موضوع سخن بنایا، نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے نائب صدر ڈاکٹر رفیق احمد نے سپیکر کے فرائض ادا کئے اور نہایت تحمل سے تمام مقررین کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دیا پھر مذاکرے کے اختتامی مرحلے میں تمام بحث کو سمیٹ کر اس کا ماخوذ نتیجہ بیان کر دینے کی ذمہ دار بھی ادا کی، اس مذاکرے کے ابتدائی مرحلے میں اظہار بیان اور تعمیر استدلال کا معیار بہتر تھا اور پیپلز پارٹی کے ایک کارکن عبدالقیوم نظامی نے نہایت باریک بیانی سے وہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ جیسے دہشت گردی، جذبہ¿ جہاد کی کوکھ سے نَمُو پا رہی ہو مگر ریٹائرڈ برگیڈیر حامد سعید اختر نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے واضح کیا کہ جہاد کو دہشت گردی قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ جہاد ایک ایسے اسلامی جذبے کی ضرب کا نام ہے جو دہشت گردی، ظلم و ستم اور انصاف شکن قوتوں کا انسداد کر دینے کے لئے میدان میں اترتا ہے، عبدالقیوم نظامی نے افغانستان میں روس کے خلاف جہادی قوتوں کی معرکہ آرائی کو امریکی اشارے کا نتیجہ¿ کار قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم جس راستے پر چل کر یہاں پہنچے ہیں اس کا انتخاب بھی ہم نے خود کیا تھا مگر برگیڈیر(ریٹائرڈ)حامد سعید اختر نے عبدالقیوم نظامی کے اس استدلال کا بھی احتساب کرتے ہوئے فرمایا کہ افغانستان سے روس کو نکال دینے کے لئے پاکستان نے ضیاءالحق کے دور میں جو پالیسی اور حکمت عملی وضع کی وہ اس کی اپنی تھی اور تاریخی حقیقت وہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس میدان میں جنرل ضیاءالحق سے بھی کام لیا اور ان کے فہم و فراست کے مطابق جب پاکستان نے افغانستان میں روس کے خلاف اپنی یلغار کا آغاز کردیا تو کہیں ڈیڑھ دو سال کے بعد امریکہ بھی نمودار ہوا۔ بہرحال جہاں تک جناب قائداعظم کی ذاتِ والا صفات کا تعلق ہے عبدالقیوم نظامی کے اظہار خیالات سے بھی واضح ہوتا رہتا ہے کہ وہ جناب قائداعظم کی محبت وعقیدت سے سرشار ہیں اور آج بھی جبکہ انہوں نے اپنی تقریر میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی شخصیات کو نمایاں کرنے کا چارہ کیا وہ جناب قائداعظم کے افکار و تعلیمات کے دائرے سے باہر نہیں تھے اور واشگاف الفاظ میں کہا کہ اس وقت جبکہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان اعتماد کے بحران سے گزر رہا ہے ملتِ پاکستان کا اصل المیہ وہ ہے کہ اسے جناب قائداعظم کے فہم و فراست اور فکر و تدبر کا حامل کوئی ایسا لیڈر نہیں مل رہا ہے جو عوام کے اندر اعتماد پیدا کرسکے۔
آج ہمدرد شوریٰ میں دہشت گردی کو موضوع سخن بنالینے کے باعث بحث کا انداز نہایت جوشیلا تھا جس میں محترمہ ناصرہ جاوید اقبال، مولانا عبدالخبیر آزاد، آفتاب لودھی، چودھری بشیراحمد ایڈووکیٹ، خواجہ راحت لطیف، نواز ملک اور ڈاکٹر مظہر نے بھی حصہ لیا۔ آخر میں سپیکر ڈاکٹر رفیق احمد نے بحث کو سمیٹتے ہوئے فرمایا کہ اس مذاکرے کے دوران مقررین نے جتنے نکات بیان کئے ہیں ان تمام پر تبصرہ تو ممکن نہیں مگر اس حقیقت کو ملحوظ رکھنا ہوگا کہ بھارت تو روز اول سے پاکستان کا دشمن چلا آرہا ہے اور اس پر کسی طرح بھی کوئی اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
آج ہمدرد شوریٰ میں دہشت گردی کو موضوع سخن بنالینے کے باعث بحث کا انداز نہایت جوشیلا تھا جس میں محترمہ ناصرہ جاوید اقبال، مولانا عبدالخبیر آزاد، آفتاب لودھی، چودھری بشیراحمد ایڈووکیٹ، خواجہ راحت لطیف، نواز ملک اور ڈاکٹر مظہر نے بھی حصہ لیا۔ آخر میں سپیکر ڈاکٹر رفیق احمد نے بحث کو سمیٹتے ہوئے فرمایا کہ اس مذاکرے کے دوران مقررین نے جتنے نکات بیان کئے ہیں ان تمام پر تبصرہ تو ممکن نہیں مگر اس حقیقت کو ملحوظ رکھنا ہوگا کہ بھارت تو روز اول سے پاکستان کا دشمن چلا آرہا ہے اور اس پر کسی طرح بھی کوئی اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔