خبر ہے کہ درندوں نے دو بچیوں کو زیادتی کے بعد مار ڈالا‘ انارکلی‘ گجرپورہ سے لاشیں برآمد ہو گئیں۔
ایک قیامت ہے جو ملک میں برپا ہے‘ جرائم پیشہ لوگ اس صورتحال سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں‘ بچیوں کو زیادتی کے بعد مار ڈالنے کے واقعات اب روزانہ کا معمول بن گئے ہیں‘ اگر سبزہ زار کے واقعے پر اب تک کچھ ہوا ہوتا تو یہ واقعہ پیش نہ آتا۔ کوئی محفوظ نہیں‘ بچے بچیاں اغواء ہوتے ہیں‘ سراغ نہیں ملتے‘ پولیس اپنا روایتی کردار ادا کر رہی ہے‘ جرم ہوتا ہے‘ سزا نہیں ملتی۔ البتہ پولیس مقابلوں میں مارنے کے بہت ماہر ہیں‘ حکومت کو چاہئے کہ وہ ایسی پولیس کو گھر بھیج دے‘ شاید لوگ محفوظ ہو جائیں۔
ملک میں ایک عجیب حشر نشر برپا ہے‘ نہ اندر والوں سے کوئی محفوظ ہے اور نہ باہر والوں سے۔ قانون نافذ کرنیوالے ادارے صرف پٹرول پھونکتے ہیں‘ گاڑیاں دوڑاتے ہیں اور سینوں پر ستارے سجاتے ہیں۔ کیا یہی کارکردگی ہوتی ہے حکومت کی‘ اسکے اداروں کی؟ سیدھی سی بات یہ ہے کہ عملدرآمد کا وجود نہیں‘ رونے والوں کے کوئی آنسو نہیں پونچھتا‘ یہ حالات ہمیں کہاں لے جا رہے ہیں‘ اس کا اندازہ شاید ہمیں نہیں۔
٭…٭…٭…٭
مشہور مقولہ ہے ’’شامتِ اعمال ما صورت نادر گرفت‘‘ یہ ہمارے اپنے ہی اعمال ہیں جنہوں نے ایسی صورت اختیار کرلی ہے کہ اب قابو میں نہیں آتی۔ آپ ذرا غور فرمائیں‘ اس ڈاکٹر اور اس مینجر پر جس نے علاج کیلئے آنیوالی ایک معصوم بچی کو ایک ٹیکے کے بجائے تین ٹیکے لگا دیئے اور اسے موت کی نیند سلا دیا۔ ڈاکٹر اور منیجر تو گرفتار ہو چکے ہیں‘ مگر اسکے بعد کیا ہو گا‘ یہ بھی سب جانتے ہیں۔ ملک میں لاقانونیت کا دور دورہ ہے اور جرم بھی آزاد ہے۔
اعتراز احسن صاحب نے یقین تو دلایا ہے کہ جلد ہی لوگوں کو آزاد عدلیہ کے فوائد پہنچنا شروع ہو جائیں گے‘ ہم لوگ بحث کرتے ہیں‘ بیان دیتے ہیں‘ کالم لکھتے ہیں‘ مگر حل نہیں ڈھونڈتے۔ ہر کوئی اپنے جوہر دکھا رہا ہے‘ مگر ملک زیرو پوائنٹ پر کھڑا ہے۔ حکمران اپنی حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ پروٹوکول ہیں‘ کشکول ہیں‘ سب کچھ گول مول ہے اور اس ملک میں رکھا کیا ہے؟ حوصلے انکے گرائے جاتے ہیں‘ جن میں جرأت ہوتی ہے‘ یہاں تو حوصلے گرانے کی جرأتیں بھی نہیں رہیں‘ یہ ملک کیوں نہیں سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا ہو جاتا۔ بشرطیکہ اکثریت اسکا اسمبلی میں ساتھ دے۔
٭…٭…٭…٭
ان دنوں صدر آصف علی زرداری پر الزامات کی بھرمار ہے‘ بہرحال الزامات تو الزامات ہوتے ہیں‘ جرائم نہیں ہوتے۔ بات کہنے کی یہ ہے کہ جب قوم نے اور ملک کی سب سے بڑی پارٹی نے آصف علی زرداری کو صدر بنایا تو ان پر کوئی اعتراض نہ تھا‘ اب جو کرنا ہے کرلیں‘ مگر ایک بات ضرور مدنظر رکھنی چاہئے کہ پاکستان کے وجود کیلئے موجودہ حکومت کا اپنی مدت پوری کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ عرصہ چشم زدن میں گزر جائیگا اور بعد میں جو کرنا ہو کرلیا جائے۔ پاکستان میں موجودہ حکومت کا برقرار رہنا جمہوریت کا مستحکم رہنا بہت ضروری ہے۔ یہ سارے مسائل ایسے موقع پر اٹھائے جا رہے ہیں‘ جبکہ امریکہ‘ بھارت اس ملک کے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں اور یہاں کے اداروں کو آپس میں دست و گریباں کرنا چاہتے ہیں۔ یہ پاکستان بھی یہیں ہے اور صدر زرداری بھی یہیں ہیں‘ آزاد عدلیہ بھی یہیں ہے‘ کوئی بھاگ نہیں رہا مگر موجودہ حالات میں ملک کا استحکام اداروں کا مضبوط ہونا اور خاص کر جمہوریت کا چلتے رہنا وطن کی اشد ضرورت ہے۔
٭…٭…٭…٭
مون مارکیٹ کے المناک حادثے کے بعد قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور خاص کر پولیس کو عقل آجانی چاہئے کہ حادثے سے کیسے نمٹا جاتا ہے۔ جب بار بار دھماکے ہو رہے ہیں اور معصوم جانیں تلف ہو رہی ہیں‘ تو پھر کم از کم پولیس کو حفاظتی لباس میں اس عمارت میں موجود رہنا چاہئے مگر یہاں تو یہ حال ہے کہ پولیس سے پہلے میاں عامر خون دینے پہنچ گئے‘ اگر حفاظتی انتظامات ان بڑی بڑی عمارتوں میں ہوں تو کافی حد تک بچت ہو سکتی ہے۔ ایسے لباس موجود ہیں‘ جو آگ سے محفوظ رکھتے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حفاظتی ادارے پہلے سے کسی بھی ممکنہ واقعے کیلئے تیار رہیں‘ ہر بم کو خودکش واقعہ سمجھ لینا درست نہیں‘ آج اس بات کے امکانات سو فیصد بڑھ گئے ہیں کہ بم دھماکے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کئے جائیں‘ بڑی بڑی مارکیٹوں میں موجود لوگوں کو کسی خطرے سے اس لئے بھی آگاہ نہیں کیا جا سکتا کہ ایجنسیوں کو خطرے کی خبر ہی نہیں ہوتی۔ پولیس والے اپنی توندیں بچاتے ہوئے سب سے آخر میں پہنچتے ہیں۔
٭…٭…٭…٭
امریکی فوج کے سربراہ ایڈمرل مائیک مولن نے کہا ہے کہ افغانستان میں مزاحمت شدید ہو گئی ہے‘ امریکہ جنگ ہار رہا ہے‘ مزید فوجیوں کی تعیناتی سے ہلاکتوں میں اضافہ ہو گا۔
امریکی نئی پالیسی جو خطرات لئے ہوئے ہے‘ اس کی طرف امریکی فوج کے سربراہ مسٹر مولن سے زیادہ واضح اشارہ کون کر سکتا ہے۔ افغانستان افغانیوں کا ملک ہے اور امریکہ قابض ہے۔ اس لئے یہ بات منطقی طور پر صحیح ہے کہ افغانستان میں روز بروز مزاحمت بڑھتی جائیگی اور نقصانات میں اضافہ ہو گا۔ اگر امریکہ اس بھول میں ہے کہ تیس ہزار فوج منگوا کر وہ مزاحمت کا خاتمہ کردیگا‘ تو یہ اسکی نادانی ہو گی۔ اس وقت امریکہ نے افغانستان کے بہانے سے پاکستان میں جو حالات برپا کر رکھے ہیں‘ ان کا ہمارے سربرآوردہ برملا ذکر کیوں نہیں کرتے اور جو لوگ امریکہ جا کر چپ سادھ لیتے ہیں‘ کیا ڈالروں میں اتنی دلکشی ہے؟ یہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ امریکی فوج اگر اس خطے سے باہر جائے تو پاکستان میں نہ خودکش حملے ہونگے اور نہ کوئی دہشت گردی۔ چند ایک بھارتی چوہے جو یہاں پر افراتفری پھیلا رہے ہیں‘ انکی گردن مروڑنا کوئی مشکل نہیں‘ پاکستان میں خون میں نہائی ہوئی قوم کس سے دادرسی کرے جو اسلحہ آرہا ہے‘ اس پر امریکی مہریں ثبت ہیں‘ جو ایجنسیاں آرہی ہیں‘ وہ امریکہ کے پالتو کتے ہیں۔
ایک قیامت ہے جو ملک میں برپا ہے‘ جرائم پیشہ لوگ اس صورتحال سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں‘ بچیوں کو زیادتی کے بعد مار ڈالنے کے واقعات اب روزانہ کا معمول بن گئے ہیں‘ اگر سبزہ زار کے واقعے پر اب تک کچھ ہوا ہوتا تو یہ واقعہ پیش نہ آتا۔ کوئی محفوظ نہیں‘ بچے بچیاں اغواء ہوتے ہیں‘ سراغ نہیں ملتے‘ پولیس اپنا روایتی کردار ادا کر رہی ہے‘ جرم ہوتا ہے‘ سزا نہیں ملتی۔ البتہ پولیس مقابلوں میں مارنے کے بہت ماہر ہیں‘ حکومت کو چاہئے کہ وہ ایسی پولیس کو گھر بھیج دے‘ شاید لوگ محفوظ ہو جائیں۔
ملک میں ایک عجیب حشر نشر برپا ہے‘ نہ اندر والوں سے کوئی محفوظ ہے اور نہ باہر والوں سے۔ قانون نافذ کرنیوالے ادارے صرف پٹرول پھونکتے ہیں‘ گاڑیاں دوڑاتے ہیں اور سینوں پر ستارے سجاتے ہیں۔ کیا یہی کارکردگی ہوتی ہے حکومت کی‘ اسکے اداروں کی؟ سیدھی سی بات یہ ہے کہ عملدرآمد کا وجود نہیں‘ رونے والوں کے کوئی آنسو نہیں پونچھتا‘ یہ حالات ہمیں کہاں لے جا رہے ہیں‘ اس کا اندازہ شاید ہمیں نہیں۔
٭…٭…٭…٭
مشہور مقولہ ہے ’’شامتِ اعمال ما صورت نادر گرفت‘‘ یہ ہمارے اپنے ہی اعمال ہیں جنہوں نے ایسی صورت اختیار کرلی ہے کہ اب قابو میں نہیں آتی۔ آپ ذرا غور فرمائیں‘ اس ڈاکٹر اور اس مینجر پر جس نے علاج کیلئے آنیوالی ایک معصوم بچی کو ایک ٹیکے کے بجائے تین ٹیکے لگا دیئے اور اسے موت کی نیند سلا دیا۔ ڈاکٹر اور منیجر تو گرفتار ہو چکے ہیں‘ مگر اسکے بعد کیا ہو گا‘ یہ بھی سب جانتے ہیں۔ ملک میں لاقانونیت کا دور دورہ ہے اور جرم بھی آزاد ہے۔
اعتراز احسن صاحب نے یقین تو دلایا ہے کہ جلد ہی لوگوں کو آزاد عدلیہ کے فوائد پہنچنا شروع ہو جائیں گے‘ ہم لوگ بحث کرتے ہیں‘ بیان دیتے ہیں‘ کالم لکھتے ہیں‘ مگر حل نہیں ڈھونڈتے۔ ہر کوئی اپنے جوہر دکھا رہا ہے‘ مگر ملک زیرو پوائنٹ پر کھڑا ہے۔ حکمران اپنی حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ پروٹوکول ہیں‘ کشکول ہیں‘ سب کچھ گول مول ہے اور اس ملک میں رکھا کیا ہے؟ حوصلے انکے گرائے جاتے ہیں‘ جن میں جرأت ہوتی ہے‘ یہاں تو حوصلے گرانے کی جرأتیں بھی نہیں رہیں‘ یہ ملک کیوں نہیں سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا ہو جاتا۔ بشرطیکہ اکثریت اسکا اسمبلی میں ساتھ دے۔
٭…٭…٭…٭
ان دنوں صدر آصف علی زرداری پر الزامات کی بھرمار ہے‘ بہرحال الزامات تو الزامات ہوتے ہیں‘ جرائم نہیں ہوتے۔ بات کہنے کی یہ ہے کہ جب قوم نے اور ملک کی سب سے بڑی پارٹی نے آصف علی زرداری کو صدر بنایا تو ان پر کوئی اعتراض نہ تھا‘ اب جو کرنا ہے کرلیں‘ مگر ایک بات ضرور مدنظر رکھنی چاہئے کہ پاکستان کے وجود کیلئے موجودہ حکومت کا اپنی مدت پوری کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ عرصہ چشم زدن میں گزر جائیگا اور بعد میں جو کرنا ہو کرلیا جائے۔ پاکستان میں موجودہ حکومت کا برقرار رہنا جمہوریت کا مستحکم رہنا بہت ضروری ہے۔ یہ سارے مسائل ایسے موقع پر اٹھائے جا رہے ہیں‘ جبکہ امریکہ‘ بھارت اس ملک کے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں اور یہاں کے اداروں کو آپس میں دست و گریباں کرنا چاہتے ہیں۔ یہ پاکستان بھی یہیں ہے اور صدر زرداری بھی یہیں ہیں‘ آزاد عدلیہ بھی یہیں ہے‘ کوئی بھاگ نہیں رہا مگر موجودہ حالات میں ملک کا استحکام اداروں کا مضبوط ہونا اور خاص کر جمہوریت کا چلتے رہنا وطن کی اشد ضرورت ہے۔
٭…٭…٭…٭
مون مارکیٹ کے المناک حادثے کے بعد قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور خاص کر پولیس کو عقل آجانی چاہئے کہ حادثے سے کیسے نمٹا جاتا ہے۔ جب بار بار دھماکے ہو رہے ہیں اور معصوم جانیں تلف ہو رہی ہیں‘ تو پھر کم از کم پولیس کو حفاظتی لباس میں اس عمارت میں موجود رہنا چاہئے مگر یہاں تو یہ حال ہے کہ پولیس سے پہلے میاں عامر خون دینے پہنچ گئے‘ اگر حفاظتی انتظامات ان بڑی بڑی عمارتوں میں ہوں تو کافی حد تک بچت ہو سکتی ہے۔ ایسے لباس موجود ہیں‘ جو آگ سے محفوظ رکھتے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حفاظتی ادارے پہلے سے کسی بھی ممکنہ واقعے کیلئے تیار رہیں‘ ہر بم کو خودکش واقعہ سمجھ لینا درست نہیں‘ آج اس بات کے امکانات سو فیصد بڑھ گئے ہیں کہ بم دھماکے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کئے جائیں‘ بڑی بڑی مارکیٹوں میں موجود لوگوں کو کسی خطرے سے اس لئے بھی آگاہ نہیں کیا جا سکتا کہ ایجنسیوں کو خطرے کی خبر ہی نہیں ہوتی۔ پولیس والے اپنی توندیں بچاتے ہوئے سب سے آخر میں پہنچتے ہیں۔
٭…٭…٭…٭
امریکی فوج کے سربراہ ایڈمرل مائیک مولن نے کہا ہے کہ افغانستان میں مزاحمت شدید ہو گئی ہے‘ امریکہ جنگ ہار رہا ہے‘ مزید فوجیوں کی تعیناتی سے ہلاکتوں میں اضافہ ہو گا۔
امریکی نئی پالیسی جو خطرات لئے ہوئے ہے‘ اس کی طرف امریکی فوج کے سربراہ مسٹر مولن سے زیادہ واضح اشارہ کون کر سکتا ہے۔ افغانستان افغانیوں کا ملک ہے اور امریکہ قابض ہے۔ اس لئے یہ بات منطقی طور پر صحیح ہے کہ افغانستان میں روز بروز مزاحمت بڑھتی جائیگی اور نقصانات میں اضافہ ہو گا۔ اگر امریکہ اس بھول میں ہے کہ تیس ہزار فوج منگوا کر وہ مزاحمت کا خاتمہ کردیگا‘ تو یہ اسکی نادانی ہو گی۔ اس وقت امریکہ نے افغانستان کے بہانے سے پاکستان میں جو حالات برپا کر رکھے ہیں‘ ان کا ہمارے سربرآوردہ برملا ذکر کیوں نہیں کرتے اور جو لوگ امریکہ جا کر چپ سادھ لیتے ہیں‘ کیا ڈالروں میں اتنی دلکشی ہے؟ یہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ امریکی فوج اگر اس خطے سے باہر جائے تو پاکستان میں نہ خودکش حملے ہونگے اور نہ کوئی دہشت گردی۔ چند ایک بھارتی چوہے جو یہاں پر افراتفری پھیلا رہے ہیں‘ انکی گردن مروڑنا کوئی مشکل نہیں‘ پاکستان میں خون میں نہائی ہوئی قوم کس سے دادرسی کرے جو اسلحہ آرہا ہے‘ اس پر امریکی مہریں ثبت ہیں‘ جو ایجنسیاں آرہی ہیں‘ وہ امریکہ کے پالتو کتے ہیں۔