پیر‘ 6 صفر المظفر1446ھ ‘ 12 اگست 2024ء

شدید بارش نے راولپنڈی کو ڈبو دیا 
ناجائز طور پر جب نالوں کے اوپر ہی نہیں اندر بھی تجاوزات قائم ہوں گی۔ سڑکوں پر نالیاں اور نالے دکانوں کے تجاوزات کے زد میں آئیں گے تو سیلاب نہیں آئے گا تو اور کیا آئے گا۔ ویسے بھی بے ہنگم طریقے سے کسی نکاسی آب کے سسٹم کے بغیر جب صرف آبادیاں بڑھیں گی تو بارش ان آبادیوں کو آسانی سے ڈبونے میں کامیاب رہے گی۔ راولپنڈی تو ہمیشہ بارش کے ہاتھوں خراب ہوتا رہا ہے۔ ہو رہا ہے۔ لے دے کر ایک نالہ لئی رہ جاتا ہے نکاسی آب کا ذریعہ اس کا بھی حلیہ بگاڑا جا چکا ہے۔۔لال حویلی کا سدا بہار سیاسی کردار ہر حکومت میں وزیر رہا مگر اپنے شہر کے مسائل سے بے خبر رہا۔ کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ پنڈی کو بارش ڈبو دیتا ہے۔ اس کے باوجود وہ لاپروائی اور بے حسی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ ہاں البتہ اب سیلاب کے بعد ان کا رونا دھونا قابلِ دید ہو گا۔ انھیں تو بس لال حویلی اور اپنے فارم ہاؤسز کی فکر ہے۔ شہر اور شہری جائیں بھاڑ میں۔ 
اسی طرح اسلام آباد کے کئی علاقے بھی گوڈوں گوڈوں پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ تو جدید شہر ہے، کیا یہاں بھی پلاننگ کرتے وقت سی ڈی اے نے نکاسی آب کا انتظام اوپر والے پر چھوڑ دیا کہ اس کی مرضی کے بارش ناں برسائے یا سیلاب سے آبادیوں کو ڈبو دے۔ خیر سے ہم ویسے بھی سب کام اوپر والے پر ہی چھوڑ کر خود خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں۔ آنکھ تب کھلتی ہے جب
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا 
والی صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں۔ اب بھی یہی ہو رہا ہے مگر کیا ہو گا یہ سیلاب بھی تباہی کی کہانیاں چھوڑ کر گزر جائے گا اور ہم پھر اپنی پرانی چال پر لوٹ آئیں گے۔ 
٭٭٭٭٭٭
گورنر سندھ کی تبدیلی کی افواہیں
اب معلوم نہیں یہ ٹھہرے پانی کے تالاب میں کون پتھر پھینک کر ارتعاش پیدا کر دیتا ہے۔ سندھ میں گورنر کے مسئلے پر کوئی ایسا معاملہ بھی نہیں تھا کہ ان کے تبدیلی کی بات کی جاتی مگر ایک منظم انداز میں چند دن سے افواہ اڑائی جا رہی تھی کہ مسلم لیگ (ن) کے کسی بندے کو گورنر سندھ لگایا جائے گا۔ پی پی والے بھی آمادہ ہیں مگر یہ معاملہ ایم کیو ایم کی راضی بررضا ہوئے بغیر طے نہیں ہو سکتا کیونکہ ایم کیو ایم والے حکومت کے اہم اتحادی ہیں۔ اس افواہ پر ان کا جو ردعمل سامنے آیا وہ سب کے سامنے ہے۔ یوں اڑنے سے پہلے ہی اس افواہ کے پر کترے گئے۔ اب حالات ناساز گار دیکھ کر مسلم لیگ (ن) نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے اور بیان جاری کیا کہ ایسا کوئی فاسدخیال کسی کے دماغ میں نہیں۔ ہمیں گورنر سندھ سے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ ایم کیو ایم نے کہا ہے کہ کامران ٹیسوری کے سوا کوئی فی الحال قابل قبول نہ ہو گا۔ سو اس کے بعد تو افواہوں سے جان نکل گئی ہے۔ ویسے گورنر سندھ خاصے بڑے دل والے ہیں وہ ان افواہوں نے ناراض نہیں ہوں گے۔ انھوں نے اپنے دور میں گورنر ہاؤس کو کافی حد تک عوامی رنگ دیا ہے۔ رمضان میں عوامی افطار پارٹی، طلبہ کے لیے آئی ٹی کلاسیں، گورنر ہاؤس کے باہر عدل کی گھنٹی۔ صرف یہی نہیں انھوں نے تو جماعت اسلامی کے شرکائے دھرنا کو چائے پانی کی فراہمی کے علاوہ گورنر ہاؤس میں دھرنا دینے کی آفر بھی کی تھی مگر وہ نہ مانے۔ اس طرح وہ عوامی گورنر کا امیج بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ اب جب تک ان کی قسمت میں گورنر ہاؤس میں رہنا لکھا ہے وہ وہاں ہی رہیں گے۔ ایم کیو ایم نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی نہ وہ اناڑی کھلاڑی میدان میں اتارتی ہے۔ اس کا اندازہ سب کو ہے۔ 
٭٭٭٭٭٭
طالب علموں کو لوٹنے والا خواجہ سرا گروپ کا سرغنہ گرفتار 
اب لاہور میں جس طرح خواجہ سراؤں نے اپنا روایتی کام چھوڑ کر روزی کمانے کے غیر روایتی طریقے اپنا لیے ہیں۔ اس کی وجہ سے بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ خاص طور پر بڑی سڑکوں کے کنارے جن میں پوش علاقے بھی شامل ہیں سرشام یہ رنگ برنگے لباس پہنے شوخ میک اپ کیے آنے جانے والوں کے لیے مسئلہ بن چکے ہیں۔ مانگنے کی حد تو بات قابلِ برداشت ہے مگر اب جس طرح نوجوانوں کو یہ منشیات اور دیگر غلط کاموں کی طرف راغب کرتے ہیں وہ کسی صورت معاشرے کے لیے اچھا نہیں۔ اسی طرح خواجہ سرا کے روپ میں چھپے مردانہ خواجہ سرا تو اب کھلم کھلا لوٹ مار بھی کرنے لگے ہیں۔ ان کا خاص نشانہ یونیورسٹی روڈ کے اطراف کے علاقے ہیں۔ جہاں طلبہ کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ یہ خواجہ سرا ان طالب علموں کو ڈرا دھمکا کر خوفزدہ کر کے ناصرف ان کی جیب خالی کرتے ہیں بلکہ ان کے موبائل بھی لے جاتے ہیں۔ ان علاقوں میں پولیس والے اور ڈولفن والے بھی گشت کرتے رہتے ہیں مگر شاید وہ اس طرح سڑک کے کنارے کھڑے لوگوں کو بات کرنا دیکھ کر ان کا ذاتی معاملہ سمجھ کر وہاں مداخلت نہیں کرتے۔ یوں واردات ہو جاتی ہے جو روکی بھی جا سکتی تھی مگر کیا کریں جو ہونا ہے ہو کر رہتا ہے۔ گزشتہ روز ڈولفن اہلکاروں نے نہر کے کنارے ایک ایسے ہی خواجہ سرا گروہ کے سرغنہ کو دھر لیا اس کے باقی ساتھی بھاگ گئے۔ یہ گروہ طلبہ کو لوٹتا تھا۔ امید ہے اس گرو کی باقی چیلیاں بھی جلد قابو میں آ جائیں گی۔ پولیس کی نسبت ڈولفن کی تربیت ذرا سخت ہوتی ہے۔اس لیے اب ان کی چوکی پر حملے کی یا ان پرہاتھ اٹھانے کی زحمت یہ خواجہ سرا نہیں کریں گے۔ اس طرح کی اگر کوئی حرکت کی تو اس کا انجام شاید اچھانہ ہو گا اور شایدبعد میں تالیاں بجاتے ٹھمکے لگاتے انہیں احتجاج کا موقع بھی نہ ملے گا۔ 
٭٭٭٭٭٭
میری والدہ ابھی تک بنگلہ دیش کی وزیر اعظم ہیں: سجیب واجد
اسے کہتے ہیں رسی جل گئی پر بل نہیں گیا۔ حسینہ واجد اپنے مربی ملک بھارت کی گود میں پہنچ کر طمانیت محسوس کر رہی اور اب وہ وہ بنگلہ دیش سے فرار کو ایک ڈراؤنا خواب قرار دے کر بھلانا چاہتی ہیں : بقول شاعر 
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب 
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا 
مگر یہ حادثہ کہہ لیں یا تلخ واقعہ اتنی آسانی سے بھلایا نہیں جا سکتا کیونکہ وہ اپنی مرضی سے وطن چھوڑ کر نہیں آئیں۔ انھیں عوامی طاقت نے یک بینی و دوگوش پکڑ کر بھاگنے پر مجبور کیا ہے۔ وہ جان بچا کر ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھارت بھاگی ہیں جہاں پہنچ کر ان کے جان میں جان آئی اور مودی سرکار نے ان کو تھپکی لگائی کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں تو موصوفہ نے وہی روایتی سیاسی بیان داغا جو ہر مفرور سربراہ کہتا ہے کہ میں ابھی تک بنگلہ دیش کی وزیر اعظم ہوں۔ حالات درست ہونے پر واپس جا کر اقتدار سنبھالوں گی۔ یہ وہ اکیلی کہتیں تو ہم اسے خام خیالی کہتے مگر اس خیالِ باطل میں ان کے بیٹے سجیب واجد اپنی والدہ کے ہم نوا ہیں اور کہہ رہے ہیں میری والدہ ابھی بھی بنگلہ دیش کی وزیر اعظم ہیں۔ بھلا جب نہ ملک ہو نہ تاج و تخت ہو تو حکومت کس کی اور کون سی اب یہ صرف ایک خوابِ پریشاں ہے جو اب کافی دیر تک شیخ حسینہ واجد اور ان کے بیٹے کو کافی دیر تنگ کرتا رہے گا۔  اور ڈراؤنا خواب بن کر انھیں ستاتا رہے گا۔

ای پیپر دی نیشن

قیدی 804 سسٹم کیلئے ناگزیر! 

لقمان شیخروبروبازی گر معروف انڈین ادا کار شاہ رخ خان کی فلم ہے. اس فلم میں انکا ایک ڈائیلاگ بہت مشہور ہوا تھا. '' ریس میں کوئی جیت ...