رجیم چینج کسے کہتے ہیں ؟حقیقی عوامی انقلاب کیسا ہوتا ہے ؟اور سازشی تھیوری اور سازشی منصوبہ جات کے ذریعے بننے والے ہیرو کی اپنے عوام الناس کے ہاتھوں دہائیوں بعد تذلیل کیسے ہوتی ہے؟ اور جمہوری لباس میں ایک فاشسٹ کا انجام کیسا ہوتا ہے؟ اور ایک جمہوری ریاست میں ون نیشن ون پارٹی کا بھیانک منصوبہ کا کیا انجام ہوتا ہے؟ اگر کوئی پاکستانی ان تمام سوالات کے جوابات کا متلاشی ہے تو اسے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں وہ صرف ماہ اگست کے اوائل میں بنگلہ دیش میں برپا ہونے والے چند ہفتوں پر مشتمل طلبہ کے انقلاب اور اس کے نقطہ انجام کو بخوبی دیکھ ہو اور سمجھ سکتا ہے کس طرح ایک طلبہ تحریک نے بنگلہ دیشی شہریوں کے بنیادی حقوق دلانے کے اپنے عزم اور ارادہ کی تکمیل کی اور سرخرو ہوئے شیخ مجیب الرحمن اور اس کی حکمران بیٹی حسینہ واجد کے بارے میں بنگالیوں کے حالیہ نفرت انگیز رد عمل سے اگرچہ سقوط ڈھاکہ کا زخم منڈمل نہیں ہو سکتا مگر کم از کم ہمیں اتنا دلی سکون تو ملا کہ بھارتی پٹھوں اور ان کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازش کرنے والے اور بنگلہ دیش پر راج کرنے والے اپنے انجام کو پہنچے نہ صرف یہ بلکہ آج بھی بنگالی حضرت قائد اعظم کو اپنا حقیقی لیڈر اور نجات دہندہ تصور کرتے ہیں اور بنگالی عوام اپنے پاکستانی بھائیوں سے محبت اور الفت کے بندھن میں بندھی ہوئی ہے۔
1971ء میں پاکستان کے سابقہ صوبہ بنگلہ دیش کا الگ ہونا اور ایک نیا ملک بنانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں سمجھنی چاہیے کیونکہ اس ناقابل قبول واقعہ کا وقوع پذیر ہونا ایک یقینی امر تھا اور اس کی بنیادی وجہ ریڈ کلف ایوارڈ کا غیر منصفانہ ہونا تھا جس میں بنگلہ دیش کو مغربی پاکستان سے جوڑے رکھنے کے لیے کوئی زمینی راستہ نہ فراہم کرنا تھا جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے ملانے کے لیے واحد سمندری راستہ جو کہ 2371 کلومیٹر بنتا ہے کہ اس عجیب و غریب حد بندی نے روز اول سے ہی کئی سوالات لا کھڑے کیے تھے اور بھارتی عیاری نے بھی اس اہم نقطہ کو مستقبل کے لیے پاکستان کے خلاف سازش کرنے کے لیے سنبھال کر رکھ لیا تھا اور پھر شیخ مجیب الرحمن جیسے غدار وطن نے پاکستان کے دشمن بھارت کی تیار کردہ مکتی باہنی تحریک کے ساتھ مل کر اور بھارتی فوج کو مکتی بانی کے روپ میں بنگلہ دیش میں لا کر پاکستان کے خلاف ایسی سازش رچی کے 23 سال بعد ہمیں دو لخت کر کے ہی سانس لیا کیونکہ بنگلہ دیش پر بھارت قبضہ تو کر نہیں سکتا تھا چنانچہ اس نے مشرقی پاکستان کو ایک الگ ریاست بنانے کا اپنا خواب پورا کیا مطلب جغرافیائی فاصلے سے دشمن نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ خیر رب کریم کی ذات بہت بڑی منصف و عادل ہے تا قیامت شیخ مجیب الرحمن کو بنگالیوں کا ناجات دہندہ بنا کر پیش کرنے اور برقرار رکھنے والوں کا خواب آج چکنا چور ہو چکا ہے۔ اپنے باپ کی پیش رو شیخ حسینہ واجد پاکستانیوں سے نفرت میں باپ سے بھی دو ہاتھ آگے تھی اور اسکے دور حکومت میں بہت سی بنگلہ دیشی سرکاری پالیسیاں اس نفرت کا مظہر تھیں جس میں اس ملک کے تخلیق کار بھارت کا بڑا کلیدی کردار رہا ہے اگرچہ اس نام نہاد آئرن لیڈی کے دور میں بنگالیوں کی شرح نمو کافی بہتر ہوئی اور یہاں تک کہ پاکستان اور بھارت کے مقابلے میں ترقی کی شرح میں یہ آگے نکل گیا لیکن محض ترقی ہی سب کچھ نہیں ایک حکمران کے لیے جمہوری اقدار کا فروغ کس قدر ضروری ہے یہ خاتون سب کچھ بھلا بیٹھی تھی اور مسلسل 15 سالہ دور حکومت میں اس کے ذہن میں آمرانہ سوچ یعنی ون نیشن ون پارٹی کا ایسا فتور بھر چکا تھا کہ فاشست بھی شرما جائیں۔
پاکستان سے محبت کرنے والوں کو کھلے بندوں پھانسیاں بھی دی گئیں یہاں تک کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو تو اہنی ہاتھوں سے کچلنے کی کوشش کی گئی نوکریوں کے کوٹہ میں بھی بھارت نواز پالیسی کے تحت مکتی بانی کے ایجنٹوں کی ال اولاد کو ہمیشہ ترجیح دی گئی اور اعلیٰ عہدوں پر میرٹ کی بجائے شیخ مجید کے نظریہ کے حامل اور خاص کر عزیز و اقارب کو نوازا گیا اور پاکستان سے رغبت یا الفت رکھنے والوں کو ہمیشہ رضاکار کا طعنہ دیا گیا۔
دوسرے لفظوں میں بنگلہ دیش کی عوام کے حقوق پر ہر لحاظ سے ڈاکہ ڈالا جا رہا تھا اور ریاست کو بھی بھارت کی ایک کالونی بنا کر رکھ دیا گیا تھا یہ وہ لاو تھا جو یقینا اس وقت زیادہ پکنا شروع ہو۔
ا جب سے حسینہ واجد گزشتہ 15 سالوں سے حکومت پر غیر جمہوری طریقے سے براجمان تھی جماعت اسلامی بنگلہ دیش تو ہٹ لسٹ پر تھی ہی مگر بنگال نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ خالدہ ضیا کو بھی جان بوجھ کر کئی عرصہ سے پابند سلاسل رکھا گیا تھا اور بالاخر طلبہ جو کہ سیاسی لحاظ سے اگرچہ اتنے پختہ ذہن کے مالک نہیں ہوتے اس لاوے کے پھٹتے ہی سڑکوں پر نکل آئے اور جنہوں نے اناً فاناً شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا بوریا بستر گول کرتے ہوئے انہیں گھر کو چلتا کیا اور پھر سب نے دیکھا کہ کس طرح ہندو ریاست کے ساتھ ایک غیر فطری دوستانہ تعلق اپنے انجام کو پہنچا اور 1971ء سے بنگالیوں کے دلوں میں بسی نفرت اور بھڑاس شیخ مجیب کے درجنوں دیوقامت مجسموں کو گرا کر اور اندرا گاندھی میوزیم کو کھنڈر بنا کر بڑی عمدگی سے نکالی گئی نہ صرف یہ بلکہ شیخ حسینہ نے فرار کے لیے اس ملک کا انتخاب کیا وہ بھی بھارت ہی نکلا یعنی پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس سارے سیاسی بنگالی منظرنامے کی بنا پر پورے بھارت میں صف ماتم بچھا ہوا ہے جسے وہ خود ساختہ پر اپنی شکست تسلیم کر رہے ہیں اور پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کو اس کا مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے چور کی داڑھی میں تنکا کیونکہ یہ جو گند خود کرتے رہے ہیں وہی یہ دوسروں سے توقع کرتے ہیں۔
دراصل اس بنگلہ دیشی تبدیلی کو ایک خونی انقلاب گردانہ جانا چاہیے جس نے 300 کے لگ بھگ طلبہ اور شہریوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا جس میں وہ کامیاب رہے لیکن ہمارے نزدیک بنگلہ دیش کی یہ تبدیلی سقوط ڈھاکہ کا ایک ایسا آفٹر شاک ہے جو کہ مستقبل میں پاکستانی اور بنگالی بھائیوں کو قریب لانے میں مدد دینے کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش میں غیر مری بھارتی تسلط اور اس کی بے جا در اندازی کے خواب کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دے گا۔
٭…٭…٭
بنگلہ دیشی تبدیلی یا سقوط ڈھاکہ کے آفٹر شاک
Aug 12, 2024