قافلہ ٔ حسینؓ
کڑی سکیورٹی کے حصار میں بے پنا ہ عقیدت، ادب، دلی احترام ، سوگ نذرونیاز میں یوم عاشور بغیرکسی بڑی خبر،حادثہ کے گُزر گیا ۔ صد شکر ۔ صدیوں سے ’’فکرِ حُسین‘‘ کی فتح اور یزیدیت کے ظلم و ستم کے تذکرے زندہ ہیں۔ کربلا محض ایک شہر کا نام نہیں۔ ایک اٹل تاریخ ہے۔
اللہ تعالیٰ کی واحدانیت، اسلام کی ابدیت پر جانثاروں کی لازوال قربانی کا تا قیامت نہ بھولنے والا انمٹ قصہ شجاعت ۔ تاریخ عالم تباہ کن جنگوں ،خونی انقلابات کے تذکروں سے اٹی پڑی ہے مگر کوئی بھی یاد نہیں رہا۔ نہ اُس پائے کا ہے جو پیارے امام عالی مقام نواسہ رسول ﷺنے توحید و رسالت کی حفاظت کا حق ادا کرکے رقم کیا ۔ فسق و فجور کا بازار سجانے والا یزید ۔ جس نے قیامت تک ظلم و ستم ، بدی، شیطانیت کو اپنے سے منسوب کر لیا ۔ اُس دور کا صرف ایک بندہ ۔ غمِ کربلا کا ظالم ترین موجد ۔ یزید تھا ۔ قارئین ۔ کیا معلوم ہوتا ہے کہ یزید مر چکا ہے ؟
مجھے تو ذرا بھر شک نہیں ۔ خلفائے راشدین کے طریقہ انتخاب کے برعکس یزید کی نامزدگی پر بیعت سے انکار صرف خلافت پر عدم اعتماد نہیں تھا بلکہ موروثیت کی نفی تھی جو کلمہ حق بلند نہ ہوتا تو آج ہر طرف صرف جابراور ظالم نظر آتے ۔
یزید ایک شخص کا نام نہیں ۔ ظلم ، لادینیت، فرعونیت، انتہا پسندی سب یزیدہیں ۔ حق و باطل کا معرکہ آج بھی جاری ہے۔ لمحہ موجود میں ہر شعبہ ، ہر جماعت پر فکر یزیدیت چھائی ہوئی ہے۔
محرم الحرام سے چند دن قبل صرف 3دن میں مرغی کی قیمت میں 75روپے کا اضافہ ۔ منافع خور مافیا نے گوشت سے لیکر پکی پکائی دیگوں ، دودھ ، سبزی سمیت ہر وہ چیز تین گنا زائد نرخوں پر فروخت کی جو محرم الحرام کے غمزدہ ایام میں استعمال کی جاتی ہے۔اس موقع پر گورکن بھی پیچھے نہ رہے۔ قبرلپائی کا ریٹ 1000 سے 2000 روپے کر دیا مٹی کی ٹرالی الگ سے مہنگی ۔ عام دنوں میں قبرستانوں میں 100روپے فی کلوبکنے والے پھولوں کی پتیاں 500روپے کلو تک بیچی گئیں ۔ قومی تہواروں ۔ مقدس ایام کو منافع خوری ۔ ہوس زر سے آلودہ کرنے والے یزیدیت کے پیروکار نہیں ؟ یزید نے بھی تو حکومت کی ہوس میں ’’کربلا‘‘ برپا کیا تھا۔ جائز منافع کمانے کی بجائے نفع خوری کی آخری ممکن حد تک جانے والے یزیدیت کے علم بردار نہیں ؟؟ ہوس حکومت کی ہو یا پیسے کی ہر لمحہ، ہر جگہ سراسر نقصان، گھاٹے کا سودا ہے۔
2016 ء میں ’’ورلڈ اکنامک فورم‘‘ نے کہا تھا کہ پاکستان دنیا کا چوتھا غیر محفوظ ملک ہے ۔اس عزت افزائی کے ایوارڈ کے اجراء کو چھ سال گزر گئے آ ج 2022 ء اختتام کی طرف ہے ۔
پاکستان کے جو حالات ہیں یقینا لیول اُوپر نہیں گیا ہوگا ۔بہت بڑی گہری مگر سر تاپا حقیقت سے جُڑی سچائی کہ گڈ کے نام پر بیڈ گورننس جاری ہے۔ عوام سے مذاق ہو رہا ہے ۔ ایسے لوگوں کو ووٹ دئیے تو یہی ہونا تھا۔ ماضی اور لمحہ حاضر کی تمام تر خرابیوں، بگاڑ میں کیا صرف سیاسی اشرافیہ ۔ مقتدر حلقوں کا کردار ہے؟
آج اگر پاکستان چوتھا غیر محفوظ ملک ہے تو اس پر کون سوچے گا۔ تجزیہ کرے گا کہ عوام کا حصہ کتنا تھا اور ہے ؟سیاستدان تو عوام سے ووٹ لیکر منتخب ہوتے ہیں۔ مان لیا ۔ بے وفائی، عہد شکنی سیاست کا طرہ امتیاز ہے مگر قارئین! جو ایک دن میں سینکڑوں قبریں کھودتے ہیں ۔ اپنے سامنے ۔اپنے جیسوں کو مٹی کے ڈھیر میں دفن کرتے ہیں ۔ موقع ملنے پر وہ بھی مٹی کی امانت سے منافع خوری کرنا نہیں بُھولتے ۔
کیا وہ فکر حسین کی اتباع کرتے نظر آتے ہیں یا یزید کے ہجوم کا حصہ دکھائی دیتے ہیں ؟ہر وہ کام ، چیز ،فعل، اعمال جو اعتدال سے ہٹ جائیں ۔ ظلم ہے ۔ مگر انسان بذات خود ظلم کی مشین ہے ۔ مٹی کی پیداوار۔ مٹی میں دفن ہونے کی تقدیر رکھنے والا مگر ہوس سے بھرا ہوا۔ مٹی کی امانت ۔ کس قدر تکبر ، خود پسندی ، طمع کا شکار ہیں ہم سب ۔ پاک وطن میں معاشرتی خرابیوں کے درآنے۔ نمو پانے میں ’’ہوس کی سوچ‘‘ کا کلیدی کردار ہے۔ ہوس حکومت کی ، جاہ وحشم کی ہو یا مال و دولت کی ۔ یہ یزیدیت کی فکر ہے۔
ہمارے معاشرے کو اِسی فکر نے یرغمال بنا لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تجارتی و سیاسی منافع خوری ۔ بے حیائی بگاڑ کی حد تک پھیل چکی ہے۔ میڈیا ہو یا پھر کریانہ فروش کی دوکان۔ سبزی منڈی سے لیکر تعلیمی درسگاہیں تک احساس ذمہ داری سے کلیتاً مبرا ہیں ۔ ذمہ دار عہدوں پر بیٹھے اشخاص ذمہ داری اٹھانے ۔ ایمانداری سے فرائض نبھانے پر تیار نہیں ۔ مقصد کوئی بھی ہو ۔ مملکت کی عزت ۔ سلامتی اور اداروں کا احترام قائم رہنا چاہیے ۔
ہم جو روزانہ شام کو تیار ہو کر ٹی وی پر بیٹھ کر حکومت۔ اداروں کو رگیدتے ہیں ۔ خود کتنے پارسا ہیں؟ اپنے فرائض سے ایماندار ہیں ؟ عوام کا عوام سے کیا معاملات ہیں ؟لین دین کا انداز کیاہے؟
ہم کیوں نہیں چاہتے ہیں کہ سبھی لوگ ٹیکس دیں ۔ سچ بولیں ۔ انصاف سے کام لیں ۔ دوسروں کو ہر لحظہ دیوتا دیکھنے کی خواہش رکھنے والے ہم اپنی ذات سے یزیدیت کی نشانیاں کُھرچنے پر آمادہ نہیں۔ ہم جو مٹی کی پیداوار ہیں ۔ مٹی کی ڈھیری میں کِسی بھی وقت مل جانے والے۔ ہم اِس مٹی کی امانت کی کتنے ہی ظالمانہ طریقوں، سفاک سوچوں، ہوس کی سیمنٹ سے کنکریٹ بنالیں ۔
سچ آفاقی حقیقت سے ۔ ہمیشہ کی بالادستی کا علم بردار ہے۔ غالب آکر رہتا ہے۔ جبکہ مٹی گھنٹوں میں ڈھیری میں بدل جاتی ہے اس لئے دُعا ہے کہ یار ب کریم ، رحیم ہم سے یزیدیت سے نکال کر ہم کو قافلہ حُسین‘ میں شامل فرما دے ۔’’آمین‘‘