گینداب وزیر اعلیٰ کی کورٹ میں ہے

آج کا کالم وزیراعلیٰ پنجاب کے نام کہ شائد اللہ انہیں توفیق عنایت کر دے اور وہ ریسکیو 1122 جیسا کوئی اور کام بھی کر جائیں۔ سورۃ رحمن کی چھٹی آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ستارے اور درخت سب اس اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ اسکی تفسیر میں علمائے کرام لکھتے ہیں کہ عربی لغت میں النجم کو جہاں ستارے اور تارے کہا گیا ہے وہیں پر اس سے مراد ایسے پودے اور بیل بوٹے بھی ہیں جن کے تنے نہیں ہوتے مثلاً ترکاریاں‘ خربوزے ‘ تربوز اور بیلوں پر اگنے والی تما م ایسی چیزیں لہٰذا علمائے کرام اس سے ستارے بھی مراد لیتے ہیں اور بیل بوٹیاں بھی جبکہ شجر تو درخت ہی ہیں۔ قرآن مجید میں نجم کو تاروں ہی کے معنوں میں بھی لیا جاتا ہے کیونکہ قرآن مجید میں ایک اور مقام پر بھی ستاروں اور درختوں کے سجدہ ریز ہونے کا ذکر آتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ درخت اللہ کو سجدہ کرتے ہیں تو جو درخت لگاتے ہیں اور جن کے ہاتھوں کے لگے درخت سالہا سال کی طویل عمر پاتے ہیں پھر وہ درخت جتنے بھی سجدے کرتے ہیں انکے ثواب کا کوئی نہ کوئی مخصوص حصہ اسکے لگانے والے کے اکاونٹ میں بھی تو نیکیوں کی صورت میں مسلسل لکھا جاتا ہو گا اور یہ توفیق بھی تو اللہ مہربان ہی دیتا ہے کہ کوئی شخص درخت لگائے۔ پھر یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ جو درختوں کی چوریاں کرتے ہیں، انہیں چوری سے کاٹ کر سجدے سے روک دیتے ہیں انکے اکاونٹ میں پھر لازمی طور پر گناہ بھی تو لکھے جاتے ہی ہونگے مگر انسان ہے کہ سمجھتا ہی نہیں۔ پاکستان میں ٹمبر مافیا کو کس طرح سے سیاسی سرپرستی حاصل ہے اس کی ایک مثال یوں ہے کہ ماضی میں ایک رکن قومی اسمبلی نے چھانگا مانگا جنگل سے ملحقہ کئی آرے لگوا رکھے تھے جہاں دن رات چوری کی لکڑی لائی اور چرائی جاتی تھی۔
آج سے 12 سال قبل میں ایک میڈیا ہاوس سے وابستہ تھا۔ اسکی سالگرہ پر وزیراعلیٰ پنجاب کیک کاٹنے تشریف لائے اور بعد میں انہوں نے تھوڑی دیر کیلئے ایک پروگرام میں انٹری ڈالی اور آخر میں مذکورہ میڈیا ہاوس کے سینئر سٹاف کے ساتھ گپ شپ شروع ہو گئی۔ سوالات اور تجاویز کا طویل دور چلا اور میں ایک تابعدار سامع کی طرح سنتا اور حسب عادت نوٹس لیتا رہا۔ مجھے کہا گیا کہ آپ بھی کوئی بات کریں۔ میں نے عرض کیا کہ میری ایک ہی گزارش ہے جو ذرا طویل ہو سکتی ہے۔ کہا گیا بتائیں۔ میں نے اس وقت کے وزیراعلیٰ کو معلومات کی روشنی میں بتایا کہ پنجاب میں اس وقت ایک لاکھ 30 ہزار کلومیٹر سڑکیں ایسی ہیں جو کہ حکومت پنجاب کی ملکیت ہیں اور ان میں سے تقریباً 90 ہزار کلومیٹر سڑکات ایسے علاقوں میں سے گزرتی ہیں جہاں دونوں طرف کاشتکاری ہوتی ہے اور یہ تمام تر زمین جو کہ 90 ہزارکلومیٹر کے دونوں اطراف میں ہے کیلئے پانی کی سہولت موجود ہے کہ دونوں طرف فصلیں کاشت ہوتی ہیں محکمہ جنگلات سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق ان سڑکوں کے دونوں اطراف سرکاری جگہ موجود ہے جہاں ایک کلومیٹر میں ایک طرف 1200 درخت ایک قطار میں اور دوسری طرف بھی 1200 درخت فی کلومیٹر لگائے جا سکتے ہیں۔ اس طرح اگر درختوں کی ایک قطار لگائی جائے تو 2400 درخت فی کلومیٹر لگ سکتے ہیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ پنجاب بھر کی سرکاری سڑکات کے دونوں طرف اتنی گنجائش ہے کہ کم از کم درختوں کی دو دو قطاریں اور زیادہ سے زیادہ چار بھی لگ سکتی ہیں۔ اگر ہم اوسطاً دو قطاریں ایک سائیڈ پر اور دو ہی قطاریں دوسری سائیڈ پر لگائیں تو تقریباً 5 ہزار درخت فی کلومیٹر لگائے جا سکتے ہیں جنہیں اگر 90 ہزار کلومیٹر سے ضرب دی جائے تو درختوں کی تعداد 45 کروڑ بنتی ہے۔
حکومت پنجاب کا اس پراجیکٹ پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں آتا حکومت کو صرف ایک ایم او یو یعنی معاہدہ کرنا ہے اردگرد کے زمینداروں اور کاشتکاروں سے کہ وہی درخت لگائیں اور وہی حفاظت کریں جس کی جتنی اراضی سڑک سے ملحقہ ہے وہ اسی اراضی پر درخت لگائے اور انکی آبیاری و حفاظت کرے‘ 5 سال بعد یا پھر ایک مخصوص مدت کے بعد ان درختوں کا 60 فیصد حصہ کاشتکار رکھے اور 40 فیصد حصہ حکومت کو دے دے۔ اگر 5 سال سے 7سال بعد ایک درخت پانچ ہزار کا بھی کم از کم ہو تو یہ 22 کھرب یعنی 2200 ارب روپے سے زائد رقم بنتی ہے جس کا 40 فیصد 900 ارب سے زائد ہے جو کہ حکومت کو اور 60 فیصد کاشتکار کو ملتا ہے۔ کون سا ایسا کاشتکار ہو گا جو اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہے گا جبکہ یہ تمام درخت ماحول کو کتنا خوشگوار بنائیں گے وہ ایک طرف اور پھر جب وہ حکم ربی کے مطابق سجدہ ریز ہوں گے تو اس کا ثواب کس کس کے کھاتے کو مسلسل بھاری کرتا رہے گا اس کا حساب تو انسان لگا ہی نہیں سکتا ہاں البتہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ہی لگا سکتے ہیں کہ جو ریت کے زروں اور پانی کے قطروں کو بھی گن سکتے ہیں۔
میری اس تجویز کو سب سے زیادہ پسند کیا گیا اور وزیراعلیٰ (اس وقت کے) نے اپنے ساتھ بیٹھے بیوروکریٹ محی الدین وانی سے کہا کہ یہ بہت خوبصورت تجویز ہے آپ ان کا فون نمبر نوٹ کریں اور ان سے فوری رابطہ کر کے اس تجویز کو عملی شکل دیں ۔انکی حکومت ختم ہو گئی انہیں دوبارہ بھی مل گئی مگر محی الدین وانی صاحب کا فون آنا تھا نہ آیا کہ شاید اللہ تبارک و تعالیٰ کو مفت کی کھربوں نیکیاں ان کی جھولی میں ڈالنا قبول ہ تھا، کیونکہ توفیق تو پھراللہ ہی دیتا ہے۔
بارہ سال گزر گئے، تجویز آج بھی قابل عمل ہے اور اگر اللہ نے یہ توفیق چوہدری پرویز الٰہی کے کھاتے میں لکھی ہوئی ہے تو اللہ ان کے ذہن میں ڈال دے گا اور وہ مفت میں 1122 کے بعد ایک اور بڑا کام کر جائیں گے کہ اس فانی دنیا سے تو ہر کسی نے چلے جانا ہے مگر جانے کے بعد یاد رکھا جانا کسی کسی کے نصیب میں ہوتا ہے اگر نیت نیک ہو اور حضرت ابو بن ادھم کی تھیوری کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو ایسے کام کوئی بھی اپنے نصیب میں لکھوا سکتا ہے گیند اب موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کی کورٹ میں ہے، میں نے توجہ دلا کر اپنا فرض پورا کر دیا۔