دہشت گردی کا خاتمہ اور قومی اتحاد و یکجہتی
پاکستان کی مسلح افواج نے ملک میں دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے کے لیے ماضیٔ قریب میں جو آپریشن کیے اور ٹھوس منصوبہ بندی کے تحت جو اقدامات اٹھائے ان کے نتیجے میں ملک میں بہت حد تک دہشت گردی کی کارروائیاں رک گئی تھیں، ملک میں امن و امان قائم ہو گیا تھا اور اہلِ پاکستان نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ مسلح افواج کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بے پایاں جانی و مالی نقصانات اٹھانا پڑے اور اپنی ترجیحات میں اس نے قومی سلامتی کے حامل ان اقدامات کو مقدم رکھ کر قومی فریضہ احسن طریقے سے انجام دینے کی سعیٔ مشکور کی۔ جس سے اندرونِ ملک ہی نہیں، بیرون ملک بھی فوج کی پیشہ ورانہ مہارت کا نہ صرف اعتراف کیا گیا بلکہ اس کی تحسین بھی کی گئی لیکن اب پھر دہشت گردی نے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے ہیں۔ صرف ایک ہفتے کے دوران ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں جن کی وجہ سے امن و امان کو شدید خطرات لا حق ہو گئے ہیں۔ بدھ کے روز صوبہ بلوچستان کے شہر خضدار میں قومی پرچم فروخت کرنے والے ایک سٹال پر دھماکے میں ایک شخص جاں بحق اور خاتون سمیت پانچ افراد زخمی ہو گئے۔ نامعلوم افراد نے یومِ آزادی کی مناسبت سے لگائے گئے سٹال پر دستی بم پھینکا تھا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے دھماکے میں قیمتی جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ بے گناہ لوگوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ واقعے میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلانچی میں ریموٹ کنٹرول بم سے پولیس کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ دھماکے میں ایک پولیس اہلکار زخمی ہو گیا۔ بارودی مواد سڑک کنارے نصب کیا گیا تھا، دوسری جانب کڑی ملنگ کے قریب سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران دہشتگردوں نے فورسز پر فائرنگ کر دی۔ سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں دو دہشتگرد ہلاک ہو گئے۔ دو روز قبل شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں فوجی قافلے پر خودکش حملے کے نتیجے میں چار فوجی شہید ہو گئے۔ جمرود گواد ایف سی چیک پوسٹ پر رات گئے شدت پسندوں نے ہینڈ گرنیڈ سے حملہ کر دیا۔ جس کے نتیجے میں ایک سکیورٹی فورسز اہلکار شہید جبکہ چار اہلکار زخمی ہو گئے۔ شدت پسند رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر فرار ہو گئے۔
ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اچانک اضافہ اس وقت ہونا شروع ہوا ہے جب افغانستان نے اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے والی دہشت گرد کالعدم تنظیم کو مبینہ طور پر چھوٹ دینا شروع کی۔ حالانکہ پہلے اسی طالبان حکومت نے ہی پاکستانی حکام کے ساتھ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا اور فریقین کے درمیان مفاہمت و مصالحت کی کوشش کی۔ لیکنکالعدم تنظیم کی طرف سے بعض ایسی شرائط عائد کرنے پر کہ جو کسی طرح بھی قومی سلامتی کے اداروں کے لیے قابل قبول نہیں تھیں ۔چنانچہ مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے۔ تاہم اس کے بعد بھی پاکستانی حکام اور ٹی ٹی پی کے نمائندوں کے درمیان رابطہ کاری کا عمل جاری رہا جس کی وجہ سے پاکستان میں تحریک طالبان کی جانب سے دہشت گردی کی کارروائیوں پر روک لگ گئی تھی۔ پھر پاکستانی علماء کے ایک وفد نے بھی مفتی تقی عثمانی کی قیادت میں طالبان کے نمائندوں اور تحریک طالبان کے بعض ذمہ داروں سے بات چیت کی‘ لیکن اس کوشش کا نتیجہ بھی مثبت طور پر برآمد نہ ہو سکا۔
تاہم چند روز قبل امریکی انتظامیہ نے افغانستان میں القاعدہ کے مرکزی رہنما اور اسامہ بن لادن کے جانشین ایمن الظواہری کو ڈرون حملہ میں نشانہ بنایا اور بعدازاں آرمی پبلک سکول کے ماسٹر مائنڈ دہشت گرد عمر خالد خراسانی کو ہلاک کر دیا تو اس کے بعد سے پاکستان کے علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں شروع ہوگئیں۔سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ خیبر پی کے میں بعض علاقوں خصوصاً سوات میں کالعدم تحریک طالبان کے پھر سے منظم ہونے کی اطلاعات بھی مل رہی ہیں۔ وزیردفاع خواجہ آصف نے خود قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے اس امر کا اعتراف کیا کہ ٹی ٹی پی سے خطرہ بڑھ رہا ہے۔ معاملہ کے پی کے نہیں پورے ملک کا ہے۔ تنائو کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شمالی وزیرستان میں وہاں کے زعماء سے بات چیت کیلئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دیدی ہے۔ امید ہے مسئلہ حل ہو جائے گا۔ وفاقی وزیر دفاع کے اس امید افزاء بیان کے باوجود دہشت گردی کا معاملہ اتنا آسان اور سادہ بھی نہیں ہے کہ جو محض بیان بازی سے ہی حل ہو جائے‘ اس کیلئے ٹھوس حکمت عملی وضع کرنا ہوگی اور قومی سلامتی کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے قدم بڑھانا ہوگا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے عراقی بحریہ کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل احمد جاسم معارج عبداللہ الزاید سے ملاقات کے دوران کہا ہے کہ دہشت گردی عالمی خطرہ ہے جو خطے کو غیرمستحکم کر سکتا ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے اچھی طرح سے مربوط ردعمل کی ضرورت ہے۔
سو اس تمام صورتحال کے تناظر میںپاکستانی قوم خصوصا قومی قیادت کو غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ہمارے سیاسی قائدین کو اپنے کردار و عمل کا جائزہ لینا ہوگا کہ ان کے رویوں سے ملک و قوم کو کس قدر نقصان پہنچ رہا ہے ۔ایسے حالات میں کہ جب ہمارا ازلی دشمن موقع کی تاک میں بیٹھا ہے وہ ہمارے اندرونی حالات ، اہل سیاست میں جاری چپقلش پر پوری نظر رکھے ہوئے ہے ۔وہ خدا نخواستہ ہماری کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا ہرگز موقع ضائع نہیں جانے دے گا ۔ اس لیے ان حالات میں ہماری سیاسی قیادتوں کو دور اندیشی ، متانت اور سنجیدگی کامظاہر ہ کرنا ہوگا ۔
بلا شبہ آج پوری قوم دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے وہ اس عفریت کے خاتمے کیلئے جس طرح مصروف ِ جہاد ہے قوم اسے قدر کی نظر سے دیکھتی ہے اور دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے کی جانے والی ہر کوشش میں وہ اپنی بہادر افواج کی پشت پر ہے۔ ان شاء اللہ فوج اور پاکستانی قوم کی مربوط اور منظم کوششوں کے نتیجے میں ہی دہشت گردی کا ملک سے قلع قمع ممکن ہوسکے اور ملک میں ایک بار پھر امن کا پھریرا لہرائے گا۔لیکن اس مقصد کیلئے قومی سیاسی قیادتوں کو بھی قومی اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک دشمن عناصر تک یہ پیغام پوری قوت اور شدت کے ساتھ پہنچانا ہوگا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں پوری قوم ایک ہے۔