بڑھتی ہوئی مہنگائی اور عوام کی بے بسی
فیصل آبادمیں غربت اور فاقوں سے تنگ بے روزگار شخص نے دو جواں سال بیٹیوں کو چھری سے ذبح کرنے کے بعد خود پنکھے سے جھول کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ کہنے کو یہ صرف ایک واقعہ ہے جس میں تین افراد کی جان گئی لیکن اصل میں یہ ہمارے حکمران طبقے کی بے حسی کے مقابلے میں عوام کی بے بسی کی داستان کا ایک باب ہے جو عتیق الرحمن نامی شخص نے اپنی بیٹیوں اور اپنے خون سے تحریر کیا۔ لاشوں کے قریب سے ایک خط ملا جس میں عتیق نے لکھا تھا کہ ان تینوں باپ بیٹیوں کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم نہ کروایا جائے، تینوں لاشیں ایدھی ویلفیئر سنٹر کے حوالے کر دی جائیں، تینوں کی تدفین اجتماعی قبر میں کی جائے اور گھر کا سامان ایدھی ویلفیئر سنٹر کو دے دیا جائے۔پولیس کی ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ متوفی غربت ، بے روزگاری اور فاقوں سے تنگ تھا جبکہ اس کا مکان مالک بھی مسلسل کرائے کا تقاضا کررہا تھا۔ سیاسی قیادت کی طرف سے ملک کو ترقی یافتہ بنانے اور آسمان تک پہنچانے کے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن حال یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور پھیلتی ہوئی غربت نے ہمارے معاشرے کو جنگل بنا کر رکھ دیا جہاں زندہ صرف وہی رہ سکتا ہے جس کے پاس طاقت ہے، خواہ وہ طاقت وسائل کی ہو یا وسائل چھین لینے کی۔ بظاہر تو عتیق نے اپنی بیٹیوں کو قتل کر کے خودکشی کی ہے لیکن اصل میں ان تینوں کی موت کے ذمہ دار وہ حکمران ہیں جنھیں عام آدمی کے مسائل و مصائب سے کوئی سروکار نہیں اور وہ اپنے سیاسی حریفوں کو پچھاڑنے کے لیے دن رات لایعنی بیانات جاری کرنے میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔ اگر اس طرح کے روح فرسا واقعات بھی حکمران طبقے کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑ سکتے تو پھر یہ سمجھ لیا جانا چاہیے کہ ان لوگوں میں سے وہ احساسات ختم ہوچکے ہیں جو ایک جانور اور انسان کے درمیان خطِ امتیاز کھینچتے ہیں۔