جمعۃ المبارک‘ 13 محرم الحرام، 1444ھ، 12اگست 2022 ء

ویڈیو نے شہباز گل کے ڈرائیور پر تشدد کا پول کھول دیا
یہ جو کیمرہ نام کی شے ہے۔ یہ بہت اچھی بھی ہے اور بری بھی۔ اچھے مقاصد کے لیے استعمال ہو تو اس سے بہتر کوئی نہیں بُرے مقاصد کے لیے استعمال ہو تو اس سے بدتر کوئی نہیں۔ سچ کہیں تو اب اس کی وجہ سے کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں رہتا۔ ہرچیز آن واحد میں سامنے آ جاتی ہے۔ اب شہباز گل کے ڈرائیور کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ موصوف کی گرفتاری کے وقت صرف قمیض پھٹی ہوئی تھی۔ مگر آدھ گھنٹے بعد موصوف کے ہاتھ پر اسی طرح پٹی بندھی نظر آتی ہے جس طرح پنجاب اسمبلی میں ہاتھا پائی کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کے ہاتھ پر بندھی تھی مگر چند گھنٹوں بعد وہ بھلے چنگے سب سے ملاقاتیں کر رہے تھے ہاتھ ملا رہے تھے۔ بہرکیف اب اس ڈرائیور نے بھی شاید اسی حاذق جراح سے پٹی کروائی ہو گی چند گھنٹوں بعد بندہ بھلا چنگا ہاتھ چلاتا نظر آئے گا۔ ویسے بھی اطلاع یہی ہے کہ شہباز گل کا فون اس کے پاس ہے۔ جب پولیس نے اس کے گھر چھاپہ مارا موبائل برآمد کرانے کے لیے تو موصوف اس زخمی ہاتھ کے ساتھ نہایت پھرتی سے فرار ہو گیا۔ اس کی اہلیہ اور برادر نسبتی کی پولیس پارٹی سے ہاتھ پائی بھی ہوئی۔ امید ہے اس واقعہ کی ویڈیو بھی کسی نے ضرور بنائی ہو گی جو جلد وائرل ہو جائیگی ۔ ویسے آفرین ہے اس پر جس نے حوالات میں تخت نشین شہباز گل کو فرش نشیں دکھا کر پولیس کو چکرا دیا ہے کہ یہ فوٹو کس نے بنائی اور وائرل بھی کر دی۔
٭٭٭٭
نوجوان بھارت کے یوم آزادی پر خالصتان کا پرچم لہرائیں۔سکھ فارجسٹس
قدرت کی کاریگری ہی الگ ہے۔ وہ حسن و تناسب کا ایسا بھرپور انتظار کرتی ہے کہ رشک آتا ہے۔ اب بھارت میں ہی دیکھ لیں 15 اگست کو اس کا یوم آزادی ہے۔ اس موقع پر بھارتی حکمران اور فوج پوری طاقت سے کوشاں ہیں کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اس روز بزردستی ہر گھر پر دکان پر ترنگا یعنی بھارتی پرچم لہرایا جائے۔ ہزاروں کی تعداد میں ترنگا مفت لوگوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ انہیں ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے کہ اگر انہوں نے ترنگا نہیں لہرایا تو ان کے خلاف سخت ایکشن ہو گا۔ ان کے گھروں اور دکانوں کو تباہ کر دیا جائے گا۔ وہاں ظلم و جبر کی جو کہانی لکھی جا رہی ہے اس کے جواب میں قدرت بھارتی پنجاب میں ایک نئی کہانی لکھ رہی ہے۔ امریکہ میں موجود سکھوں کی عالمی تنظیم جو آزاد خالصتان کی حامی ہے نے تمام سکھوں سے کہا ہے کہ وہ بھارت کے یوم آزادی پر خالصتان کے جھنڈے لہرائیں یعنی ہر گھر کو خالصتان کی علامت بنا دیں۔ اب کشمیر میں تو بھارتی فوج زبردستی جھنڈے لہرانے کی کوشش کر رہی ہے یہاں بھارتی پنجاب میں کیا کرے گی۔ کیا اس میں اتنی جرأت ہے کہ وہ پنجاب میں سکھوں کو خالصتانی جھنڈا لہرانے سے روکیں۔ یہاں تو بھارتی حکمرانوں کی دھوتی اور فوجیوں کی پتلون گیلی ہونے لگتی ہے۔ لگتا ہے قدرت مقبوضہ جموں و کشمیر میں ترنگا لہرانے کی زبردستی مہم کا انتقام بھارتی پنجاب میں لے رہی ہے۔ وہ بھی اس طرح کہ چاہتے ہوئے بھی بھارتی حکمران اور فوج وہاں کچھ نہیں کر سکتی۔
٭٭٭٭٭
پی ٹی آئی کا جلسہ، ہاکی سٹیڈیم میں آسٹروٹرف اکھاڑ دی گئی
یہ تو سُنا تھا کہ حکمران جب چاہیں جس شہر کو چاہیں آباد کریں یا اجاڑ دیں۔ مگر یہ کھیلوں کے میدان اجاڑنے کی پالیسی کو کیا کہا جائے۔ 13 اگست کو پی ٹی آئی کا جلسہ لاہور میں ہونا ہے تو اس کے لیے نگاہ انتخاب پڑی بھی تو ا یک خوبصورت ہاکی سٹیڈیم پر۔ کیا کوئی خانہ ویران جگہ لاہور میں دستیاب نہیں تھی کہ اس سٹیڈیم کو اجاڑا جا رہا ہے۔
وزیر کھیل پنجاب کے مطابق یہاں کا آسٹروٹرف تبدیل کر کے اسے سرگودھا ہاکی سٹیڈیم میں بچھایا جائے گا۔ ہے ناں عجیب منطق۔ اگر یہ آسٹروٹرف خراب یا پرانا ہے تو سرگودھا والوں کو یہ خراب تحفے دے کر کیوں زیر بار کیا جا رہا ہے۔ اسے یہاں ہی رہنے دیتے۔ سرگودھا میں نیا آسٹروٹرف بچھاتے۔ آسٹروٹرف یوں ہی مفت تو آتا نہیں۔ اب لاہور میں یہ ہاکی سٹڈیم نجانے کب تک اجڑا رہے گا۔ یہ ہاکی دشمن فیصلہ کب تک ہاکی کے کھلاڑیوں کی جان جلاتا رہے گا۔ کہا تو یہی جا رہا ہے کہ جشن آزادی کے بعد یہاں نیا آسٹروٹرف بچھایا جائے گا۔ یہ تو محل روشن کرنے کے لیے شہر جلانے والی بات ہے۔ سیاسی جلسے کے لیے اسی طرح کھیلوں کے میدان برباد ہوتے رہے تو نوجوانوں کے کھیلنے کے لیے کوئی جگہ نہیں بچے گی۔ پہلے ہی لینڈ مافیا نے کوئی جگہ نہیں چھوڑی نئی سوسائٹیوں میں نہ کھیل کے میدان ہیں نہ کوئی پارک نہ قبرستان تمام مختص پلاٹ بھی بیچ کر گھر بنائے گئے ہیں۔اب جو کچھ موجود ہے کم از کم اسے تو محفوظ رہنے دیں۔
٭٭٭٭٭
10 روز میں 500 خواتین نے طلاق کے دعوے دائر کئے
یہ ہوتا ہے جذباتی فیصلوں کا انجام۔ جو کام والدین کو ناراض کرکے من مرضی کے مطابق ہوتا ہے تو اس کا انجام بھی اچھا نہیں ہوتا۔ والدین بھی خدارا اپنے رویوں پر نظرثانی کریں۔ بیٹی یا بیٹے کے پسند کا بھی خیال رکھیں۔ اس کی اسلام میں بھی اجازت ہے۔ یہ کوئی گناہ نہیں‘ جرم نہیں اپنی مرضی پر اپنے حکم سے زبردستی کرنا مناسب نہیں۔ بچے بھی حالات و واقعات اور حقائق دیکھ کر فیصلہ کریں کیونکہ شادی کے بعد ذات برادری کا مسئلہ‘ معاشی تنگی کا معاملہ ساس بہودکا تنازعہ لڑائی جھگڑے کی بنیاد بنتا ہے۔ عشق کا بھوت چند روز میں اتر جاتا ہے اور اصل حقائق جب سامنے آ تے ہیں تو سارا پیار کا نشہ ہرن ہو جاتا ہے۔ عصمت چغتائی نے کیا خوب بات لکھی تھی۔ ’’مرد یا عورت بے وفا نہیں ہوتے۔ یہ آٹا‘ دال‘ چاول‘ لکڑی‘ کوئلہ‘ گھی انہیں بے وفا بنا دیتے ہیں‘‘۔ ایک بے کار‘ بیروزگار شخص بھلا بیوی کو کیا تحفظ دے گا جو خود گھروالوں کا محتاج ہو اور لڑکی بھی بہو کی بجائے بیگم صاحبہ بننے کا خواب سجائے ہوتی ہے جس پر نوبت یہاں تک آپہنچی ہے۔ پھر یوں
خدارا کسی سے محبت نہ کرنا
محبت کرو گے تو آہیں بھرو گے
سچ بن کر سامنے آتا ہے۔ سپنے ٹوٹتے ہیں۔ اس لئے بہتر یہی ہے نوجوان نسل اپنے بڑوں سے مل کر ہی رشتے ناطے طے کریں۔ بڑے اور چھوٹے سب نرمی سے‘ محبت سے‘ شادی بیاہ کے فیصلے کریں۔ بچوں کی پسند کا بھی خیال کریں تو اس طرح بات بات پر طلاق کی شرح کم ہو سکتی ہے۔ گھر بسنے کیلئے بسائے جاتے ہیں‘ اجاڑنے کیلئے نہیں۔ اس لئے اولاد اور والدین نرمی سے کام لیں۔
٭٭٭٭