حفاظتی تدابیر ہی اصل حل ہے

کئی برس قبل محمد بلال غوری کا ایک کالم شائع ہوا جس میں لکھا گیا کہ ’’ایسے افراد کی دنیا بھر میں کوئی کمی نہیں جو قدرتی آفات کو عذاب الہی قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کا شافی اور کافی علاج محض استغفار اور گناہوں سے رجوع کرنا ہے۔
ایسے افراد دنیا بھر میں بکثرت موجود ہیں جو قدرتی آفات، حادثات اور وباؤں کو عذاب الہی کے طور پر دیکھتے ہیں اور تباہی و بربادی کے ہر واقعہ کے بعد توبہ و استغفار کی منادی دیتے ہیں۔ امریکا میں سمندری طوفانوں کا سلسلہ شروع ہوا تو اہل چرچ نے متنبہ کیا کہ یہ سب سیاہ کاریوں اور بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ اب بھی وقت ہے، سدھر جاؤ کہ تم پر عذاب نازل نہ ہو مگر امریکیوں نے اس جانب مشورے پر عمل کرنے کے بجائے یہ کھوج لگانا شروع کر دیا کہ طوفان کیسے آتے ہیں؟ ان کے آمد کی بروقت اطلاع کیسے دی جا سکتی ہے اور ایسی صورت میں کیا تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں کہ جانی و مالی نقصان کم سے کم ہو۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ جب جاپان میں پہلی بار زلزلہ آیا اگر اس وقت وہاں کے حکمرانوں نے تدبیر اور تدارک کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے یہ یقین کر لیا ہوتا کہ یہ آفت معاشرے میں بڑھتی ہوئی سماجی برائیوں کا نتیجہ ہے تو کیا آج جاپان نام کا ملک دنیا کے تقشے پر موجود ہوتا؟ دنیا بھر کے حکمرانوں کو ایسے لوگوں کا ممنون ہونا چاہئے جو کسی حادثے، آفت یا تباہی کے نتیجے میں ان کا محاسبہ کرنے کے بجائے ساری بات یہ کہہ کر ختم کر دیتے ہیں کہ جب مذہب کے احکامات سے بغاوت ہو گی تو پھر زلزلے، سیلاب، طوفان اور وبائیں آئیں گی۔ یہ لوگ حکمرانوں کی نااہلی پر پردہ ڈال دیتے ہیں‘‘
قرآن کریم میں ہے کہ ’’کائنات کی پستیوں اور بلندیوں میں جو کچھ ہے، ہم نے زنجیروں میں جکڑ دیا ہے کہ انسان اپنے کام میں لائے‘‘
اس سے واضح ہے کہ حوادث ارضی میں سے کوئی حادثہ بھی ایسا نہیں ہو سکتا جس کا سدباب انسان کے بس کی بات نہ ہو۔ آج سے چودہ سو سال تو ایک طرف۔ سو سال پہلے بھی حالت یہ تھی کہ ہیضہ، طاعون، انفلوئنزا جیسے وبائی امراض جنگل کی آگ کی طرح پھیلتے تھے۔ لاکھوں جانیں ضائع کر کے رکھ دیتے اور انسان بے چارہ بے کس و بے بس کھڑا ان کا منہ تکتا رہ جاتا اور ان کے انسداد کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا لیکن اب ایسی ادویات ایجاد ہو گئی ہیں جن سے بطور حفظ ماتقدم ان کا سدباب کر دیا جاتا ہے۔ یہی صورت کورونا وبا کی ہے۔ اس کی ادویات اور ویکسین کی تیاری اور ریسرچ جاری ہے۔ 17 ہجری کے اواخر کی بات ہے کہ فلسطین کے شہر عمواس میں طاعون پھوٹا اور دیکھتے ہی دیکھتے شام سے عراق تک سارے علاقے میں سیلاب کی طرح پھیل گیا۔ یہ وہ علاقے تھے جن میں اس وقت مملکت اسلامیہ کی فوجیں یہاں سے وہاں تک پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ سب اس وبا کی لپیٹ میں آ گئیں۔ یہ وبا مہینوں تک پھیلی رہی اور ایک اندازے کے مطابق قریب پچیس ہزار مسلمان اس کی نذر ہو گئے۔ ان میں بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ شامل تھے۔ یہ حضرت عمر فاروقؓ کا دور حکومت تھا۔ فاروق اعظمؓ اس سیلاب وبا کو تو نہ روک سکے لیکن ان تباہیوں کی تلافی کے لیے بڑی تگ و تازکی ۔ وبا ختم ہو گئی تو آپ ان تباہیوں کا جائزہ لینے اور ان کا ازالہ کے لیے مناسب انتظام کرنے کی غرض سے خود شام کی طرف تشریف لے گئے۔ آپ نے طوفانِ نوحؑ کے بارے میں پڑھ رکھا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوحؑ کو کشتی کی تیاری کا حکم دیا۔ حضرت نوحؑ کشتی بنا رہے تھے اور قوم کے سرکش سردار ان کا مضحکہ اڑا رہے تھے۔ کشتی تیار ہو گئی۔ اس میں جو لوگ سوار تھے، بچ گئے۔ باقی بستی غرق ہو گئی۔ وہ کشتی تدبیر تھی۔ سعد و نحس کا تعلق آسمان کے ستاروں سے نہیں بلکہ جب کسی کے برے اعمال کے نتائج مرتب کرنے کا وقت آ جائے تو وہ گھڑی اس کے لیے نحس ہے۔ لہٰذا سعادت و نحوست خود انسان کے اپنے اعمال کے نتائج کا نام ہے۔ ستاروں کی گردش کا نام نہیں۔ ستارے تو انسان کے لیے مسخر کر دئیے گئے ہیں۔ سو جو خود محکوم و مسخر ہو وہ دوسرے مقدرات کی تبدیلیوں پر کیا اختیار رکھ سکتا ہے۔
علامہ اقبال کے الفاظ میں:۔؎
ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے
کہ خاکِ زندہ ہے تو تابع ستارہ نہیں
قارئین! وبا سے محفوظ رہنے کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں اور ڈاکٹرز کی ہدایت کے مطابق ادویات استعمال کی جائیں۔