ماں اور کردار سازی
پچھلے کالم کا اختتام ایک غیرملکی ملٹری آفیشل جس سے ملاقات اس کالم کا موضوع بنی تھی‘ کے اس سوال پر ہوا تھا جو صاحب مذکور نے ہماری ملکی تاریخ میں 7 مارچ 1835ء کی اہمیت بارے کیا تھا۔
جی قارئین! شائد یہ حقیقت اپنی جگہ پر موجود ہو کہ ہمارے ملک میں بہت کم لوگ جانتے ہوں کہ اس 7 مارچ 1835ء کی ہماری تاریخ میں کیا اہمیت ہے لیکن تاریخ کے اوراق پر آج بھی یہ تحریر ایک حقیقت کے طور پر موجود ہے کہ 7 مارچ 1835ء وہ سیاہ دن تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرل لارڈ بیبگٹن میکالے نے کونسل آف انڈیا ایکٹ کے ذریعے انڈیا کے روایتی نظام تعلیم میں بنیادی تبدیلی متعارف کرواتے ہوئے انگلش زبان کی ترویج لازمی قرار دی جس کا بنیادی مقصد مقامی آبادی سے ایک ایسے مخصوص طبقے کی تیاری تھی جن کے ذہنوں میں یہ بات پیوند کر دی جائے اور یہ احساس برتری قائم کیا جائے کہ وہ اپنی اس انگریزی تعلیم کی بدولت دوسرے ہم وطنوں سے علیحدہ اور برتر ہیں اور بقول اسکے ان جاہلوں جو انگریزی زبان سے نابلد اور ناواقف ہیں ان پر حکومت کرنا ان نوزائیدہ انگریزی تعلیم یافتہ جنہیں براؤن صاحب کے لقب سے نوازا گیا کا بنیادی حق ہے۔
دوسرے سادہ لفظوں میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس دن اس برصغیر پاک و ہند میں انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر ایک ایسی طبقاتی تفریق کی بنیاد رکھی گئی جسکی اکاس بیل نے، اس خطے کے باسیوں جنکے بارے اسی لارڈ میکالے کے وہ تاریخی الفاظ آج بھی تاریخ کا ایک حصہ ہیں جو اس شخص نے برطانیہ کی پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران کہے تھے جسکا اقتباس کچھ یوں ہے کہ "میں نے برصغیر پاک و ہند کے طول و عرض کا سفر کیا ہے اور میں نے اس خطے میں کوئی ایک ایسا شخص نہیں پایا جو چور ہو یا جھوٹ بولتا ہو۔ یہ لوگ اپنے عقائد اور روایات سے اس قدر جُڑے ہوئے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں انھیں شائد ہی کوئی شکست دے سکے اور ان پر حکومت کر سکے۔ اگر ان پر حکومت کرنی ہے تو پھر انکے نظام تعلیم میں بنیادی تبدیلیاں متعارف کروانی ہونگی اور انکو انکے اصل سے دور کر کے ایک طبقاتی تفریق پیدا کرنی ہو گی" اُن روایات اُن سماجی اقدار کو چاٹ لیا جو اس خطے کی پہچان اور شناخت ہوا کرتی تھیں۔
دوستو! میری ناقص رائے میں ہم آج جس مقام پر کھڑے ہیں جس اخلاقی دیوالیہ پن کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں وہ ایک دو سال کی بات نہیں یہ سب اس دن کی مرہون منت ہیں جس کا ذکر اس غیر ملکی نے اپنی ملاقات میں کیا۔
اس تفصیل کے بعد غالب امکان ہے کچھ ناقد دوست اس بابت کچھ تحفظات کا اظہار کریں اور انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے پر ڈیفنڈ بھی کریں اور اس بات پر زور دیتے نظر آئیں کہ آچکے دور میں انگریزی زبان کے بغیر ترقی کیسے ممکن ہو سکتی ہے۔ انکے لئے سادہ سا جواب ہے کہ اوّل حرف تنقید انگریزی زبان نہیں بلکہ وہ طبقاتی تفریق ہے جو اس ذریعہ تعلیم کی وجہ سے پیدا کی گئی اور دوئم جرمن فرانس اور چین آپکے سامنے آچکے دور کی ہی زندہ مثالیں ہیں۔ ترقی زبانوں کی محتاج نہیں ہوتی، ترقی تحقیق اور ایجادات کی وجہ سے ہوتی ہے۔
اسی سباق میں اگلا سوال جو دلچسپ بھی ہے اور جواب طلب بھی کہ بطور مسلمان ہم جن عربوں اور ترکوں سے بطور مسلمان اپنا ناطہ جوڑتے نظر آتے ہیں۔ اُنھوں نے اندلس تک حکومت کیا انگریزی زبان کے بل بوتے پر حاصل کی تھی یا اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ فتوحات حاصل کی تھیں۔
غور کریں اور بتائیں کہ پوری دنیا میں مشہور بغداد کے کتب خانوں میں علمی اور تحقیقی مواد کس زبان میں موجود تھا اور جب بغداد کو فتح کیا گیا تھا تو اسکے کتب خانوں کو کیوں جلایا گیا تھا۔ فکری اساس سے محروم لوگ شائد آج بھی اس بات سے بے خبر ہیں کہ یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا کہ مسلمانوں کی آنے والی آئندہ نسلوں کو علم سے دور کر دیا جائے انکو انکے اصل اثاثے سے محروم کر دیا جائے۔ انکے لئے انکی تہذیب انکے تمدن انکی روایات کا کوئی نشان نہ رہنے دیا جائے جو انکی پہچان انکی شناخت ہوا کرتی تھی۔ بات وہیں آ جاتی ہے جہاں سے شروع ہوئی تھی کہ دنیا میں اقوام کی پہچان ہمیشہ اُسکے افراد کی سوچ، انکا مزاج، انکے روئیے، انکی روایات، انکی تہذیب، انکا تمدن اور انکا کردار بنتے ہیں یہ المیہ آج صرف پاکستان کا نہیں پورے عالم اسلام کا مقدر بنتا جا رہا ہے ہم مسلمان ایک ایک کر کے اپنی تمام معاشرتی اور سماجی اقدار سے کوسوں دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ہاں آج بھی اگر ہم کسی غزوہ ہند کی امید لگائے بیٹھے ہیں ہاں آج بھی ہم اگر یہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہماری پہچان ان الفاظ سے مختلف ہو جو دنیا ہمارے متعلق استعمال کرتی ہے تو پھر ہمیں اپنی کردار سازی پر توجہ دینی ہو گی اور اسکے لئے اگر کوئی کردار ادا کر سکتا ہے تو وہ ہے ہر گھر میں موجود ماں۔ نپولین سے دنیا جتنی مرضی نفرت کرے لیکن دنیا کی تاریخ میں اسکا ایک نام ہے اور اسکا واحد کارنامہ شائد اسکے منہ سے ادا ہوئے وہ تاریخی الفاظ ہیں کہ آپ مجھے اچھی مائیں دو میں آپکو اچھی قوم دونگا۔ اسکی بات کی گہرائی میں جائیں کسی بھی انسان کی پہلی اور واحد درسگاہ اسکی ماں کی گود ہوتی ہے جہاں سے اسے تعلیم بھی اور تربیت بھی ملتی ہے شائد اسی لئے اہل دانش اس درسگاہ کو سب سے افضل قرار دیتے ہیں کہ انکی نظر میں تعلیم بغیر تربیت کے ایسے ہی ہے جیسے دیوار کے ساتھ ٹکڑہوسکتی ہے۔