عالمی قیادتوں کو جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں اب گفتند‘ نشستند‘ برخاستند کی پالیسی سے آگے بڑھنا ہوگا
صدر جنرل اسمبلی کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کیلئے کھلی حمایت
جنرل اسمبلی اقوام متحدہ کے 75ویں اجلاس کے نومنتخب صدر وولکن بوذکر نے گزشتہ روز اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق وزیراعظم نے صدر یواین جنرل اسمبلی کو بھارتی غیرقانونی مقبوضہ جموں و کشمیر کی سنگین صورتحال سے آگاہ کیا اور کہا کہ یہ تنازعہ سات دہائیوں سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہے۔ انہوں نے اس امرپر زور دیا کہ اقوام متحدہ اس سنگین صورتحال سے کشمیریوں کو نجات دلانے کیلئے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ان کا حق خودارادیت دلوانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ انہوں نے صدر جنرل اسمبلی کو مقبوضہ وادی میں بھارت کی جانب سے گزشتہ سال پانچ اگست سے اب تک روا رکھے گئے مظالم کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا اور توقع ظاہر کی کہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے 75ویں اجلاس میں ان معاملات کو اہمیت دی جائیگی۔ اس موقع پر صدر جنرل اسمبلی وولکن بوذکر نے جموں وکشمیر کے دیرینہ تنازعہ کے حل کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے اسے جنوبی ایشیاء کے امن و استحکام کیلئے کلید قرار دیا۔ انہوں نے پاکستان کی اعلیٰ قیادتوں سے ملاقات کے بعد دفتر خارجہ میں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے پرامن اور منصفانہ حل کیلئے اپنی کھلی حمایت کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ مسئلہ سیاسی اور سفارتی ذرائع سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ بوذکر نے کہا کہ جموں و کشمیر کے حوالے سے ترکی کا موقف بہت واضح ہے۔ جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں اور شملہ معاہدہ بھی بہت اہم ہے۔ مسئلہ کشمیر کا پرامن حل خطے کے امن کیلئے بہت ضروری ہے۔
یہ تو مسلمہ حقیقت ہے کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل گزشتہ 72 سال سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے اور اب تک یہ مسئلہ حل نہ ہو پانے کے حوالے سے اس نمائندہ عالمی ادارے کی ساکھ کا بھی سوال ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ 27 اکتوبر 1948ء کو خودمختار ریاست جموں و کشمیر میں اپنی افواج داخل کرکے بھارت نے اس پر اپنا تسلط بھی خود ہی جمایا اور پھر اسے متنازعہ بنا کر تصفیہ کیلئے اقوام متحدہ سے بھی خود ہی رجوع کیا حالانکہ کشمیری عوام نے قیام پاکستان سے بھی بہت پہلے کشمیر کے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کرلیا تھا اور اکثریتی آبادی کے حوالے سے تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق اس کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہی ہونا تھا جس کے ناطے سے قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ یواین سلامتی کونسل نے اسی پس منظر میں کشمیریوں کا حق خودارادیت تسلیم کیا اور بھارت کو مقبوضہ وادی میں استصواب کے اہتمام کی ہدایت کی۔ بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ کے روبرو اس کا وعدہ بھی کیا مگر پھر کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی اختیار کرلی۔ کشمیریوں کے استصواب کے حق کے متعلق سلامتی کونسل کی قرارداد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے بعدازاں 1955ء تک پاکستان کی درخواستوں پر درجن بھر قراردادیں منظور کیں مگر ہٹ دھرم بھارت نے نمائندہ عالمی ادارے کی ان قراردادوں کو پرکاہ کی بھی اہمیت نہ دی اور اپنے آئین مین ترمیم کرکے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا جسے کشمیری عوام نے قبول نہ کیا اور بھارتی تسلط سے اپنی آزادی کی جدوجہد مزید تیز کردی۔ قربانیوں سے لبریز انکی یہ جدوجہد گزشتہ 72 سال سے جاری ہے اور پاکستان کشمیر پر اپنے اصولی موقف کے تحت ہر عالمی اور علاقائی فورم پر کشمیریوں کی جدوجہد کی دامے‘ درمے‘ سخنے حمایت کررہا ہے جس کا خمیازہ وہ گھنائونی بھارتی سازشوں اور اسکے جارحانہ اقدام کی بنیاد پر سقوطِ ڈھاکہ کی صورت میں بھگت چکا ہے جبکہ بھارت باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہے اور امریکی سرپرستی میں ہر قسم کے جدید روایتی‘ ایٹمی اسلحہ کے انبار لگا کر پاکستان ہی نہیں‘ پورے خطے اور پوری اقوام عالم کا امن و سلامتی بھی دائو پر لگا چکا ہے۔
بھارت کی ہندو انتہاء پسند مودی سرکار نے گزشتہ سال پانچ اگست کو اپنے توسیع پسندانہ عزائم اور ہندوتوا کے ایجنڈے کے تحت ہی مقبوضہ وادی پر شب خون مار کر پارلیمنٹ کے ذریعے اسکی خصوصی حیثیت ختم کرائی اور اس کو دو حصوں جموں اور لداخ میں تقسیم کرکے انہیں الگ الگ طریقے سے بھارت میں ضم کرلیا اور پھر اپنے ان اقدامات کیخلاف کشمیریوں کی ممکنہ مزاحمت روکنے کیلئے پوری مقبوضہ وادی کو بھارتی فوج کے حوالے اور کشمیریوں کو گھروں میں محصور کردیا۔ بھارتی فوج کا یہ محاصرہ ایک سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی آج تک برقرار ہے اور اس دوران ظلم و جبر کا کوئی بھی ہتھکنڈہ ایسا نہیں ہوگا جو کشمیریوں پر آزمایا نہ گیا ہو۔ ان بھارتی مظالم کیخلاف پوری دنیا سراپا احتجاج بنی‘ سلامتی کونسل کے تین ہنگامی اجلاس منعقد ہوئے‘ امریکی کانگرس‘ یورپی یونین اور برطانوی پارلیمنٹ میں مذمتی قراردادیں منظور ہوئیں‘ او آئی سی نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سلامتی کونسل کی قراردادیں روبہ عمل لانے کا تقاضا کیا مگر توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والی مودی سرکار ٹس سے مس نہ ہوئی۔ اسی فضا میں گزشتہ سال ستمبر میں یواین جنرل اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا تو وہاں وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کشمیر پر پاکستان کا موقف بھرپور دلائل کے ساتھ کھل کر پیش کیا اور اقوام متحدہ کو اس کا کردار یاد دلایا۔ اسی طرح ترک صدر رجب طیب اردوان اور ملائشیا کے اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے بھی دیرینہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سلامتی کونسل کی قراردادیں روبہ عمل لانے کا تقاضا کیا اور مصلحتوں میں جکڑے اس نمائندہ عالمی ادارے کی بے عملی پر بھی کھل کر تنقید کی جبکہ یواین سیکرٹری جنرل پاکستان اور بھارت کے دورے کے دوران سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں ہی مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیتے رہے ہیں۔
اب جبکہ آئندہ ماہ ستمبر میں جنرل اسمبلی کا 75واں اجلاس شروع ہو رہا ہے‘ جنرل اسمبلی کے صدر کا پاکستان کا دورہ کرکے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی اہمیت تسلیم کرنا اور اس مسئلہ کے پرامن اور منصفانہ حل کی کھلی حمایت کرنا یقیناً اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان تو جنرل اسمبلی کے اس اجلاس میں بھی عالمی قیادتوں کو مقبوضہ کشمیر اور کنٹرول لائن پر جاری سفاکیت پر مکروہ بھارتی چہرہ دکھائے گا تاہم یہ عالمی قائدین پر منحصر ہے کہ وہ بھارتی جارحانہ توسیع پسندانہ عزائم روکنے کیلئے بھارت کو اقوام عالم میں تنہاء کرنیوالے مؤثر عملی اقدامات اٹھاتے ہیں یا پہلے ہی کی طرح گفتند‘ نشستند‘ برخاستند والا طرزعمل اختیار کرکے بھارت کے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو لاحق خطرات بڑھاتے ہیں۔