کہ خوشی سے مر نا جاتے اگر اعتبار ہوتا
پی ٹی آئی کواقتدارمیںلانے کی خاطرعوام نے 25جولائی 2018ء کے انتخابات میں کامیابی کیلئے سرگرم کرداراداکیا تھا تاہم حکومت سازی کیلئے پی ٹی آئی کو جن ممبران اسمبلی کی مطلوبہ تعدادکی ضرورت تھی حکومت سازی میںاہم کرداراداکرنے والی قوتوںنے مختلف جماعتوںکواتحادی بناکرمتذکرہ مطلوبہ تعدادپوری کردی،جس کے نتیجہ میں پی ٹی آئی بڑی آسانی کے ساتھ اقتدارمیںآگئی۔اقتدارمیںآنے کے بعد حکمران وہ تمام وعدے اور اعلانات یکسربھول گئے جوانہوںنے انتخابی مہم کے دوران اورانتخابی مہم سے پہلے مختلف جلسوں،جلوسوںاوراحتجاجی دھرنوںمیںعوام سے کیئے تھے،اس کے برعکس حکمرانوںنے اقتدارکے زورپرملک بھرکے مختلف شہروں،جن میںراولپنڈی اسلام آباد،اورلاہورکراچی کے بعض بڑے بڑے علاقے شامل تھے،وہاںتجاوزات کے خاتمہ کی مہم چلاکرہرخاص وعام کے کاروبارپربلڈوزرپھیرکررکھ دیا،متذکرہ تجاوزات کے خلاف چلائی گئی مہم کے دوران بڑوںکے مقابلے میںعام آدمی کی بہت زیادہ اکثریت متاثرہوکررہ گئی،جس کے نتیجہ میںبعض منچلوںنے جگہ جگہ ’’ہنڑلے،تبدیلی دے مزے‘‘کے جملے اورنعرے لکھنے شروع کردیئے،یہاںیہ امرقابل ذکرہے کہ جہاںکہیںبھی تجاوزات کے خلاف آپریشن کیاگیا ،آپریشن کے بعدآج تک ان مقامات سے ملبے کے ڈھیرتک اٹھانے کوئی سرکاری ادارہ حرکت میںنہ آیا،نئے پاکستان اورانصاف کی فراہمی کویقینی بناتے ہوئے نئے معاشرہ کی تشکیل اورنئی سہولیات کے حصول کی امیدوںمیںمبتلاء لوگ تجاوزات کے خاتمہ کی آڑمیں’’زوردارنئے جھٹکے‘‘کوبرداشت کرنے کی اپنی’’سکت‘‘کومجتمع ہی نہ کرپائے تھے کہ یکایک پیٹرولیم مصنوعات اوربجلی کی قیمتوںمیںاضافہ کے ساتھ ساتھ زمین کی خریدوفروخت کے کاروبارکے ضمن میںمزیدنئے نئے ٹیکسوںکے نفاذکی لپیٹ میںلے لیئے گئے،موجودہ حکمرانوںنے ملک کے اندرکرپشن، رشوت اورسفارش کے خاتمہ کے نعرے اورزوردار تقاریرکرکے کہ ہم ’’مافیاز‘‘کونہیں بخشیں گے ،اپنے سیاسی مخالفین کے مزاج اور’’طبیعت‘‘کودرست کرنے میں ترجیحی بنیادوں پراقدامات شروع کردیئے، جس کے نتیجہ میںموجودہ حکمرانوںسے بہتری اورفلاح کی خوشحالی اور آسائیشوں کی بہت زیادہ توقعات اورامیدیںوابستہ رکھنے والے عام لوگوںکے ہوش ٹھکانے آناشروع ہوگئے کہ’’ہماری توقعات کدھرگئیں؟؟‘‘مہنگائی اور بیروز گاری کاجادومرحلہ وارسرچڑھ کربولنے لگا،اورعام کاروباری سرگرمیاںمحدودسے محدودترہونے لگیں،کر پشن کاخاتمہ اورمافیازسے قومی دولت سے واپسی کی مہم کس حدتک نتیجہ خیز ثابت ہوئی؟،اس کے بارے میںواقفان حال خوب جانتے ہیں،تاہم 2020ء کے ابتدائی مہینوںمیں’’کروناوائرس‘‘کے بڑھتے ہوئے اثرات نے پورے ملک کواپنی لپیٹ میںلے لیا،اوربین الاقوامی سطح پرکیئے گئے فیصلوںکی روشنی میںموجودہ حکمرانوںنے بھی کروناوائرس سے بچاوکی خاطرحفاظتی تدابیراختیارکرنے اوران پرسختی کے ساتھ عمل درآمدکرانے کے احکامات اورہدایات جاری کرکے لوگوںکوزیادہ سے زیادہ وقت اپنے گھروں میںگزارنے پرمجبورکردیا،مساجد،مدارس،امام بارگاہو ں، تعلیمی اداروں،صحت کے مراکز،کاروباری مراکز مارکیٹیں،شادی ہالز،ہوٹلز،ریسٹورنٹس،تفریحی وسیاحتی مقامات،کارخانے،اوردیگرتمام ترعوامی شمولیت والی سرگرمیوںپرمکمل پابندی عائدکردی گئی،جس کے باعث عام آدمی کی کمرٹوٹ کررہ گئی،حکومتی سطح پرامدادی پیکج کابندوبست کیاگیا،تاہم عوامی سطح پرمخیئرحضرات نے دل کھول کرضرورت منداورمستحق لوگوںکوراشن سمیت کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی کویقینی بنانے کی بھرپورعملی کاوشیںکیں،کروناوائرس کے خلاف مقابلہ کرنے کی کیفیت کوچھہ ماہ کاعرصہ گزرنے کوہے،اس دوران کئی اتارچڑھاوآتے رہے، ان کی تفصیلات کااحاطہ نہیںکیاجاسکتا،البتہ پیٹرولیم مصنوعات،بجلی اورگیس کی قیمتوںمیںبارباراضافہ کرنے کے اقدامات بھی سب کے سامنے ہیں،جس کے تمام تراثرات آٹے چینی سمیت اشیائے خوردنوش کی دیگرتمام اشیاء جن میںکوکنگ آئل،گھی،مختلف دالیں اورسبزیات اوربالخصوص ادویات کی قیمتوں پرظاہر ہوئے،آٹے اورچینی کی قلت پرقابوپانے اوران دونوں متذکرہ اشیاء کی سرکاری سطح پرمقررہ قیمتوںپرآٹاچینی کی فراہمی کویقینی بنانے کی کوششیںآج تک بارآورثابت نہیںہوسکیں،حکومتی سطح پرانتظامیہ جوبھی قیمتیں مقررکر تی ہے،مارکیٹوں اوربازاروں میں اس کے برعکس قیمتوں پرآٹے اورچینی کی سیل دھڑلے سے جاری ہے،آٹے کاتھیلہ 840کی بجائے 1470روپے میں،اورچینی 75روپے کلوکی بجائے 100روپے فی کلو،اسی طرح پانچ کلوگھی کاڈبہ ایک ھزارکی بجائے 1230روپے میںفروخت کیاجارہاہے،ادویات کی قیمتیںآسمان سے باتیںکررہی ہیں،ایسے تمام ترحالات وواقعات کی صداقتوںکی روشنی میںملک کے عام طبقہ اورغیورعوام کی بہادری اورقوت برداشت کوبہت زیادہ سلام اورخراج تحسین پیش کرنے کوجی چاہتاہے،کہ حکومتی سطح پرکیئے جانے والے اب تک جوبھی اقدامات ہیں انکا بھاری وزن بڑے فخراورشوق کے ساتھ اٹھائے جا رہے ہیں،شائدوہ اپنی زبان سے شکوہ رنج والم کا اظہاراس لیئے نہیںکرناچاہتے کہ موجودہ حکمرانوں کو اقتدار میںلانے کیلیئے انکی اپنی کاوشوںاور خواہشوں کابہت زیادہ عمل دخل تھا۔