اللہ کے غضب کو دعوت نہ دو
پوری دنیا میں اِس وقت بے حیائی اور بے غیرتی عروج پر ہے یورپ اور دیگر غیر مسلم ممالک میں تو زنا شراب اور جوئے کو بھی ناجائزنہیں سمجھا جاتا لیکن افسوس کہ اب مسلم ممالک بھی بے حیائی کی زد میں ہیں ۔ اور یہ بے حیائی روز بروز کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے حیا ایمان کا اہم جزو ہے جس معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی پھیل جائے تو ایسے معاشرے جلد ہی اللہ تعالیٰ کے غضب کا شکار ہو جاتے ہیں سابق اُمتیں اپنے اعمال بد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بن چکی ہیں ، جبکہ ہم مسلمان اللہ تعالیٰ کے بڑے عذاب سے اس لیے بچے ہوئے ہیں کہ جنہوں نے اپنی پاک زندگی کی آخری سانسوں میں بھی اپنی اُمت کو یاد رکھا جس روز حضرت جبرائیل ؑ امین ،حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام لے کر حاضر ہوئے کہ یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ آپ ؐ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے اور اب اِس فانی دنیا کو چھوڑنے کا وقت آ پہنچا ہے تو حضور اقدس ﷺ نے حضرت جبرائیل سے فرمایا کہ میرے بعد میری اُمت پر رحم کرتے ہوئے اُسے بخش دے حضرت جبرائیل یہ پیغام لے کر واپس اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پہنچے اور عرض کی کہ اے مالک کائنات آپ کے محبوب اپنی اُمت کی بخشش چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے محبوب سے جا کر عرض کرو کہ میں آپ کی شفاعت قبول کرتے ہوئے آپ کی اُمت کو ضرور بخش دوں گا جب یہ پیغام لے کر حضرت جبرائیل امین ؑ حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں پہنچے تو یہ پیغام سن کر رسول اللہ ﷺ بڑے خوش ہوئے پھر حضرت عزرائیل ؑ نے حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں آخر روح مبارک قبض کرنے کی بھی درخواست کی اور باقاعدہ اجازت طلب کرتے ہوئے عرض کی کہ یارسول اللہ ﷺ آج سے پہلے اور بعد میں مجھے کسی سے بھی اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہوئی لیکن چونکہ آپ ؐ اللہ تعالیٰ کے انتہائی پیارے حبیب اور محبوب ؐ ہیں اس لیے اجازت طلب کر رہا ہوں جس پر رسول اللہ ﷺ نے عزرائیل کو روح قبض کرنے کی اجازت دی اور یوں آپ ؐ اللہ تعالیٰ کے پاس سورہ منہتی اور عرش اعلیٰ پر پہنچ گئے ہر آسمان پر فرشتوں نے آپ ؐ کو مرحبا کہتے ہوئے آپ ؐ کا استقبال کیا تو یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جس پاک رسول ﷺ نے اپنی اُمت کی خاطر اتنا زیادہ غم فکر کیا افسوس کہ آج ہم اُمت والوں نے اپنے رسول ﷺ اور نبی کے دین کے ساتھ کیا سلوک کیا ہوا ہے ۔ یوں تو وطن عزیز میں ہر برائی عام ہو رہی ہے موبائل اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال نے ہماری نسلوں کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے ۔
ایک اور افسوس ناک واقعہ گذشتہ دنوں لاہور کی تاریخی مسجد وزیر خان میں رونما ہو ا جہاں ایک فلم کی شوٹنگ کرتے ہوئے اداکارہ صباء قمر اور بلال نے حصہ لیا مسجد وزیر خان خانہ خدا ہے جس کو شاہ جہاں کے حکیم وزیر خان نے بنوایا تھا اندرون دہلی دروازہ میں یہ تاریخی مسجد شاہی حمام سے ذرا آگے واقع ہے مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہوتا ہے جہاں پر مسلمان پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں اور قرآن پاک کی تلاوت اور رمضان المبارک میں نماز تروایح کے ساتھ اعتکاف میں بیٹھتے ہیں الغرض مسجدیں کعبہ شریف کے بعد مسلمانوں کے لیے بڑی عزت کا درجہ رکھتی ہیں لیکن افسوس کہ محکمہ اوقاف نے کس طرح سے فلم والوں کو شوٹنگ کرنے کی اجازت دی حالانکہ محکمہ اوقاف میں بڑے مذہبی لوگ بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں لیکن کسی نے بھی مسجد کی عظمت کا خیال نہ کیا اور پھر جس دہلی دروازے کے اندر مسجد واقع ہے وہاں کے مکینوں اور مسجد کے نمازیوں نے بھی فلم کی شوٹنگ کے دورا ن احتجاج نہ کیا او رمجرمانہ غفلت کا مظاہر ہ کیے رکھا گانے کی عکاس بندی کے دوران نہ جانے مسجد میں کس طرح کی بیہودگی کا مظاہرہ کیا گیا اِس مجرمانہ فعل میں پنجاب حکومت برابر کی شریک ہے محکمہ اوقاف سے لے کر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی یہ اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اِس حرام فعل میں ملوث افراد کی فوری گرفتاری کا حکم جاری کریں اور مسجد وزیر خان میں جا کر گر یہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کریں مولانا طارق جمیل جو ہر دوسرے ماہ وزیر اعظم سے ملاقات کرنے وزیر اعظم ہاؤس جاتے ہیں اب ذرا مسجد وزیر خان کے اِس بے ہودہ واقعہ کے بارے میں بھی اپنا احتجاج کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کریں اور اُن سے سوال کریں کہ ریاست مدینہ کے نام پر یہ ڈرامے بازی بند کریں اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو مزید دعوت نہ دیں آخر علماء کرام کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے ؟