شجرکاری مہم۔صدقہ جاریہ
اہل دانش جانتے ہیں کہ مملکت خدا داد ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ان چند ممالک اور خطوں میں سے ایک ہے، جہاں بڑی تیزی سے موسمیاتی تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں۔ ان موسمیاتی تبدیلیوں میں چند چیزیں عوام وخواص کے مشاہدہ میں ہیں مثلاً:
گرمی کی شدت میں اضافہ‘ موسم سرما کی بتدریج کمی‘ بارشوں کی قلت‘بے موسمی بارشیں‘غیر متوقع سیلاب اور پانی‘غیر متوازن موسم اور آب وہوا
ان سب چیزوں کا اصلی اور حقیقی سبب تو انسانیت کی بڑھتی ہوئی ضلالت، عصیان، حق تعالیٰ کی نافرمانی اور استغفار کا نہ ہونا ہے، بلاشبہ حق تعالیٰ سبحانہ جب اپنے بندوں سے ناراض ہوتے ہیں، تو وہ اپنی رحمت روک لیتے ہیں اور بندہ جب خالق حقیقی کی جانب التفات کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ کی جملہ رحمتیں بھی متوجہ ہوجاتی ہیں ۔ بارشیں،موسم، زمین سب موافق ہوجاتی ہیں اور انسان کی بگڑی بھی سیدھی ہوجاتی ہے، لیکن جب اللہ جل شانہ ناراض ہو تے ہیں تو سب کچھ نا موافق ہو جاتا ہے، یہ تو ہے باطنی سبب۔ ظاہری سبب اس سب کا تیز رفتاری کے ساتھ جنگلات کا خاتمہ، درختوں کی کٹائی اور نئے درختوں کی کاشت کی جانب توجہ کا نہ ہونا ہے۔ درخت اللہ تعالیٰ کی نعمت عظمیٰ ہے، جس کے ساتھ دنیا میں بھی رفاقت ہے اور جنت کی تو پہچان ہی باغات اور درختوں کے ساتھ ہے ۔اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ درخت جنت کا بھی ساتھی ہے، درخت انسان، جانور چرند وپرند بلکہ درندوں کی بھی حقیقی ضرورت ہیں۔ درندوں کی تو زندگی ہی جنگلات اور درختوں کی مرہون منت ہے۔ جب سے جنگلات کا خاتمہ شروع ہوا، یہ درندے معدوم النسل ہوتے جارہے ہیں، جبکہ درخت انسانی آکسیجن، سایہ، پھل اور ٹھنڈک کابھی ذریعہ ہیں۔ محققین کے مطابق درختوں کی بدولت انسان سانس لیتے ہیں۔ درخت آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ نیز چرندو پرند، انسان، چلملاتی دھوپ میں درخت کی آغوش میں پناہ لیتے ہیں، انہیں کی بدولت ہماری غذا و خوراک ایندھن اور فرنیچر وغیرہ حاصل ہوتا ہے۔ چونکہ شجر کاری انسانی ضرورت ہے اس لیے قرآن وسنت نے اپنے پیروکاروں کو شجر کاری جیسے عظیم فریضہ کی جانب متوجہ کیا ہے۔ ذیل میں اس حوالہ سے قرآن و سنت کی ہدایت پیش کی جارہی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے درختوں اور درختوں کے مختلف الگ ذائقوںکو اپنی نشانی قرار دیا ہے ملاحظہ ہو:
ترجمہ۔’’ اور زمین میں مختلف قطعے ہیں جو پاس پاس واقعے ہوئے ہیں اور انگور کے باغ اور کھیتیاں اور کھجور کے درخت ہیں، جن میں سے کچھ دہرے تنے والے ہیں، اور کچھ اکہرے تنے والے۔ سب ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں، اور ہم ان میں سے کسی کو ذائقے میں دوسرے پر فوقیت دے دیتے ہیں۔یقینا ان سب باتوں میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیں‘‘۔
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے درختوں کو اپنی نعمتوں میں سے ایک نعمت قرار دیا ہے، ارشاد فرمایا:
ترجمہ۔’’ بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور تمہارے لیے آسمان سے پانی اتارا ؟ پھر ہم نے اس پانی سے بارونق باغ اگائے، تمہارے بس میں نہیں تھا کہ تم ان کے درختوں کو اگا سکتے۔ کیا (پھر بھی تم کہتے ہو کہ) اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا ہے ؟ نہیں! بلکہ ان لوگوں نے راستے سے منہ موڑ رکھا ہے‘‘۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شجر کاری کو ایسا نیک عمل قرار دیا ہے جس کا اجر انسان کو دنیا سے جانے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے، صحیح مسلم میں حدیث ہے:
ترجمہ۔’’جو بھی مسلمان درخت لگائے یا کھیت کاشت کرے، پھر اس سے انسان، جانور، پرندے کھائیں،تو اس کے بدلے اسے صدقہ کا ثواب ملتا ہے ‘‘۔
مسند احمد کی روایت میں ہے کہ سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ دمشق میں شجر کاری فرمارہے تھے، ان کے پاس ایک شخص گزرا اور کہنے لگا کہ آپ صحابی رسول ہوکر یہ عمل کر رہے ہیں؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: رائے قائم کرنے میں جلدی نہ کر، اس سلسلہ میں میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ بتاتا ہوں۔ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ جس شخص نے درخت لگایا اس سے انسان یا کسی اور مخلوق نے کھایا تو یہ لگانے والے کے لیے صدقہ ہوگا۔
اہل علم نے شجر کاری کو صرف صدقہ ہی نہیں بلکہ صدقہ جاریہ قرار دیا ہے، صدقہ جاریہ سے مراد وہ صدقہ ہے جس کا اجرو ثواب دنیا سے جانے کے بعد بھی جاری رہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پیش خدمت ہے، امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’سات اعمال کا اجر مرنے کے بعد قبر میں بھی جاری رہتا ہے۔
(۱)علم سکھانا (۲)نہر جاری کروانا (۳)کنواں کھدوانا (۴)کھجور(درخت) لگانا (۵)مسجد کی تعمیر کروانا (۶) کسی کو قرآن کریم دے دینا(۷)ایسی اولاد چھوڑ جانا جو والدین کے لیے ان کے جانے کے بعد بھی استغفار کرتی رہے( بیہقی)