پنجاب یونیورسٹی، میاں فاروق اور مریم بی بی!!

پنجاب یونیورسٹی جیسے اہم اور بڑے تعلیمی ادارے کو ہمیشہ غیر متنازعہ رہنا چاہیے، یہاں ہمیشہ میرٹ کو ترجیح دی جانی چاہیے، یہاں سے ہر وقت ایسی خبریں آنی چاہئیں کہ دل خوش ہوتا رہے۔ پنجاب یونیورسٹی کا ماحول ایسا ہونا چاہئے کہ یہاں سے اتحاد، اتفاق، تنظیم کا پیغام جائے۔ یہاں تعلیم حاصل کرنے والے خود کو صرف صرف پاکستانی سمجھیں۔ یہاں کوئی بلوچی، سندھی، پنجابی اور پختون نہ ہو بلکہ یہاں سب پاکستانی ہوں۔ یہاں ہر وقت تحقیق ہوتی رہے، یہاں سے اچھے لیڈرز سامنے آئیں، اچھے انسان، اچھے مسلمان، اچھے پاکستانی اور ذمہ دار شہری سامنے آئیں۔ یہاں سے ایک ایسی نسل عملی زندگی میں آئے جو پاکستان کے بنیادی مسائل حل کرنے میں کردار ادا کرے، ملک کو اندھیروں سے نکالے، روشنی کا سفر شروع ہو تعلیم ہماری سب بڑی طاقت بنے۔ وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز اختر ایسی ہی پنجاب یونیورسٹی کے خواہشمند ہیں دعا ہے کہ وہ کامیاب ہوں لیکن کچھ مسائل ایسے ضرور ہیں جو مختلف حلقوں میں زیر بحث ہیں۔ یہ مسائل خالصتاً انتظامی ہیں اور افسران کی توجہ کے منتظر ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کام رکے ہوئے ہیں اس وجہ سے بڑی بڑی باتیں ہو رہی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے حوالے ایسی باتیں نہیں ہونی چاہئیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دیگر سرکاری اداروں کی طرح یہاں بھی انتظامی سطح پر کام کرنے والوں کا اپنا مزاج ہے جسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ امید ہے وائس چانسلر اس طرف توجہ دیں گے۔
الحاج سرور حسین نقشبندی بہت اچھے نعت خواں ہیں۔ لکھنے کا شوق بھی رکھتے ہیں انہیں دیکھتے ہیں تو بابا جی مرحوم حفیظ تائب بھی یاد آتے ہیں۔ دین کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ لکھنے کا شوق بھی ہے۔ دوستوں کو میٹھی میٹھی آواز میں قائل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہوئے اپنا پیغام پہنچاتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ شدت پسند نہیں ہیں اختلاف رائے کا احترام کرتے ہیں اور ہر حال میں نبی کریم ﷺ کی نعت کے مشن پر رہتے ہیں۔ اپنی بات سناتے اور دوسروں کی سنتے ہیں۔ انہوں نے نہایت محبت کے ساتھ گذشتہ دنوں ہونے والی ایک تقریب کا احوال لکھ بھیجا ہے۔ ہم مشکور ہیں کہ اس نیک کام میں ہمارا حصہ بھی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ سرور حسین نقشبندی کو صحت و تندرستی والی عمر عطاء فرمائے اور وہ تاعمر دنیا بھر میں تاجدارِ انبیاء خاتم النبیین محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی نعتیں پڑھتے رہیں۔
سرور حسین نقشبندی لکھتے ہیں کہ داتا کی نگری لاہور ہمیشہ سے علم ادب اور سیاسی و مذہبی تحریکوں اور ان کی کامیابیوں کامرکز رہی ہے۔ لاہور میں عقیدہ اہل سنت، مقام سیدہ کائنات اور شان صدیق اکبر کے عنوان سے ایک عظیم الشان اور فقید المثال کانفرنس نعت کونسل انٹرنیشنل اور ادارہ منہاج القرآن کے تعاون سے منعقد کی گئی جو کئی حوالوں سے اپنے اندر امتیازات کی شان لئے ہوئے تھی۔پہلی بار اتنی کثیر تعداد میں محافل کی زینت بننے والے قراء کرام، نعت خوان حضرات اور نقباء ایک جگہ اکٹھے ہوئے۔نمائندہ علماء کی قابل ذکر تعداد موجود تھی،مشائخ کی نمائندگی اور دیگر اہل علم و دانش کی بھی ایک کہکشاں اس کانفرنس میں شریک ہوئی۔ تقریب کے منتظم اعلیٰ سید حسنین محبوب گیلانی تھے۔ان کے والد گرامی کی خدمات فروغ نعت خوانی اور محافل کے حوالے سے بہت اہمیت کی حامل ہیں والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے اس مشن کو باوقار انداز سے جاری رکھا ہوا ہے۔ قاری محمد یونس قادری،نعت خواں محمد افضل نوشاہی اور شہزاد حنیف مدنی نے انتظامات کو بہتر بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ خلیل ملک بھی تقریب کو انتظامی لحاظ سے باوقار بنانے میں پیش پیش تھے۔کانفرنس کا حاصل وہ گفتگو تھی جس کو مضبوط اور مدلل علمی پیرائے میں علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے بیان کیا۔بلا شبہ اپنی بے مثال علمی وجاہت،لازوال زورخطابت اور دینی مسائل کی گہرائی میں اتر کر اسے سہل زبان میں سمجھانے میں انہیں ید طولیٰ حاصل ہے۔انتہائی نازک اور اہم معاملے کی گتھی کو انہوں نے جس خوبصورتی سے سلجھایا اور اس کی علمی توجیہات بیان کرتے ہوئے اس کی جزئیات کو جیسے کھول کر سامنے رکھا اس سے صاحبان علم و شعور اور سادہ فہم رکھنے والوں نے بیک وقت استفادہ کیا۔ کانفرنس کاعنوان دراصل محافل سے قدرے مختلف ہوتا ہے اور اس کیلئے کچھ اہداف اور مقاصد کو سامنے رکھنا ضروری ہوتا ہے جس کا کوئی نمایاں ذکر اس دن سنائی نہیں دیا۔اس سے چند روز قبل بھی ایک حلقے کی طرف سے کانفرنس منعقد کی گئی تھی جس میں بعض حضرات کی طعن و تشنیع پر مبنی گفتگو نے بہت سے سوالات پیدا کئے جو پریشان کن تھے۔ اس تناظر میں اگر کہا جائے کہ اس تقریب نے خاصا مثبت پیغام دیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔اس کانفرنس کے بعد بھی اطراف میں ایسی ہی نوعیت کی تقریبات کی گونج سنائی دینے لگی ہے جس سے ایک مقابلے کی فضا پیدا ہوتی بھی دکھائی دے رہی ہے۔ایسے اجتماعات میں اپنے اپنے شعبے سے منسلک نمائندہ شرکاء کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محافل کے حوالے سے کچھ اہم امور پر بھی توجہ دلائی جاتی تو یہ بہت سود مند ہوتا۔مذہبی سٹیج بہت ذمہ داری کا تقاضا کرتے ہیں،یہاں پر بولے جانے والے ایک ایک لفظ کو بہت ناپ تول کر ادا کرنا چاہئے اور اپنی حدود و قیود اور دائرہ کار کاادراک رکھتے ہوئے بات کرنی چاہئے۔محفل کے آخر میں پڑھے گئے منقبت کے ایک شعرجس پرمحفل میں توداد و تحسین سے نوازا گیا لیکن سوشل میڈیا پہ بہت شور برپا ہو گیا۔معاملے کی نزاکت اور حساسیت کا دھیان کئے بغیر اسے دونوں طرف سے غیر دانشمندانہ طریقے سے اچھالا گیا اور آخر کاراس کی وضاحت کا ویڈیو بیان جاری کرنا پڑا۔ نعت و منقبت جیسی شعری اصناف میں طبع آزمائی کرنے والوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہئے کہ کوئی بھی ایسا لفظ جس کو کوئی اختلافی معنی بھی نکلتے ہوں برتنے سے گریزلازم ہے جس کی دلیل ہمیں قرآنی حکم میں ’’راعنا‘‘ اور ’’انظرنا‘‘ کے فرق سے سمجھ لینی چاہئے۔ایسی کانفرنسز میں سنجیدہ نتائج کے حصول اورانہیں زیادہ سے زیادہ ثمر آوربنانے کے لئے کچھ اہداف قرار داد کی صورت ضرورپیش کرنے چاہئیں جس سے غیر سنجیدہ ماحول و معاملات میں تبدیلی لائی جا سکے۔اہل سنت کا عقیدہ ایک حسن توازن اور اعتدال کا داعی ہے جس میں کسی طرف افراط و تفریط نہیں بلکہ ایک حدمیزان قائم ہے اور یہی اس کی جازبیت کا سبب ہے۔اللہ کرے کہ ہمارے ثناء خوان اور خصوصاً نقباء اس میں اپنا اپنا مثبت اور فعال کردار ادا کرتے ہوئے اس توازن کو محافل میں قائم رکھنے کی عملی سعی کریں تا کہ اس کے اصل رنگ کو پھر سے اجاگر کیا جا سکے۔وہ ہستیاں جو بہر آن ہماری عقیدتوں،محبتوں اور احترام کا مرکز ہیں ان کے نام پر محافل میں سادہ لوح مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنا اب ترک کر دیناچاہئے۔ہمارے غیر معتدل اور غیر محتاط روئیے کے سبب ہم پہ اٹھنے والی انگلیاں سو فیصد درست نہیں تو انہیں مکمل طور پہ غلط بھی نہیں کہا جا سکتا۔
سرور حسین نقشبندی نے اچھے الفاظ میں محفل کا نقشہ کھینچا ہے بہتر ہوتا کہ وہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی تقریر کا کچھ حصہ بھی شامل کرتے تاکہ قارئین کو مسئلہ سمجھنے کے ساتھ ساتھ رہنمائی بھی ملتی۔ ہم تو جانتے ہیں کہ کانفرنس کے انعقاد کی ضرورت کیوں پیش آئی اور ان دنوں کس اہم معاملے پر مذہبی شخصیات اظہار خیال کر رہی ہیں لیکن بہتر ہوتا کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کا خطاب بھی شامل ہوتا۔ ہم علماء میں اتحاد اور اتفاق کے قائل ہیں انہوں نے رہنمائی کرتے ہوئے قوم کو متحد کرنا ہے انہیں تقسیم نہیں ہونا چاہیے۔ علماء کے مرتبے کا تقاضا ہے کہ انہیں عام آدمی سے کہیں زیادہ تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات کو قابو میں رکھنے کی حکمت عملی اختیار کرنی ہے۔ اشتعال کے بجائے احترام کے راستے پر چلنا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے نظریاتی و بانی اراکین میں آج ہم میاں فاروق کی خدمات پر روشنی ڈالیں گے۔ میاں فاروق نے انیس سو ستانوے کے الیکشن میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا، دو ہزار ایک سے دو ہزار آٹھ تک پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری رہے۔ عمران خان کے ساتھ پورا ملک پھرنے کا منفرد اعزاز رکھتے ہیں۔ سحر انگیز شخصیت کے مالک میاں فاروق ایک ایماندار سیاست دان اور سیاست کو خدمت سمجھ کر کرتے تھے۔ طویل عرصہ انجمن آرائیاں کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ ان کا شمار دلیل کے ساتھ قائل کرنے والے افراد میں ہوتا ہے۔ عمران خان کی ایمانداری سے متاثر ہو کر اس یقین کے ساتھ کہ جو کہہ رہا ہے وہ کرے گا۔ عمران خان کے انصاف عام، احتساب سرعام اور اقتدار میں عوام کے نعرے کو حقیقت میں بدلنے کے میاں نواز شریف سے برسوں کے قریبی ذاتی تعلقات ختم کر کے عمران خان کے ہمسفر بنے۔ میاں فاروق نے تحریک انصاف کے لیے دن رات محنت کی عمران خان کو جگہ جگہ لے کر گئے۔ لوگ آتے اور جاتے رہے لیکن میاں فاروق ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ وہ وضعدار اور باکردار شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کی سیاست کا محور ہمیشہ عام آدمی رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ نظریے اور اصولوں کی سیاست کرنے والے سیاست دان ہیں۔ مشکل وقت میں وہ پی ٹی آئی کے لیے کام کرتے رہے لیکن مارچ دو ہزار گیارہ کے جلسے سے قبل ملاقات ہوئی اور دوبارہ کبھی کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ آج عمران خان کو تجربہ کار، ایماندار، محنتی اور نظریاتی کارکنوں کی ضرورت ہے۔ اچھا کپتان وہی ہوتا ہے جو عروج میں زوال کے دوستوں کو یاد رکھتا ہے۔ گوکہ میاں فاروق کا اب عمران خان سے کوئی رابطہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود انہیں یقین ہے کہ عمران خان نے جو کہا تھا وہ کرے گا۔ یہی امید قوم کو بھی ہے کیونکہ ایک طویل جدوجہد اور دہائیوں کی کرپشن کے بعد پاکستان کے لوگوں نے تیسری سیاسی قوت کو موقع دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو نظریاتی کارکنوں کی تلاش ہے۔ جماعت کے حقیقی چہروں کی تلاش ہے ان کے پاس کئی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے جماعت کے لیے نظریے اور مقصد کے ساتھ کام کیا ہے میاں فاروق کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ اگر عمران خان بنیاد پر واپس آتے ہیں مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے مشکلات کم ہو سکتی ہیں۔ کھلاڑی آؤٹ آف فارم ہوتا ہے تو وہ واپس اپنی بنیاد پر آتا ہے۔ پی ٹی آئی کو بھی کامیابی کے لیے اپنی بنیاد پر واپس آنا ہو گا۔ میاں فاروق نے پاکستان تحریک انصاف کے لیے بہت کام کیا ہے، دیرینہ تعلقات کو قربان کرتے ہوئے پی ٹی آئی کا جھنڈا بلند کیا ہے۔ وہ برسوں ملک میں حقیقی تبدیلی کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے کام کرتے رہے آج صرف پاکستان تحریک انصاف ہی نہیں حکومت اور ملک کو ایسے بے لوث، ایماندار اور مخلص افراد کی ضرورت ہے۔
مریم نواز کی نیب پیشی کے موقع پر ہونے والا تماشا نئی بات نہیں ن لیگ کے مفاد پرست ٹولے کا مقصد نوجوان نسل کو گمراہ کرنا اور ہر جائز ناجائز راستہ اختیار کرتے ہوئے اقتدار میں آنا ہے۔ انہیں کچھ غرض نہیں کہ اس کے لیے کیا کچھ کرنا پڑے، خون بہانا پڑے، ملک دشمنوں سے دوستی کرنا پڑے یا پھر اپنے ہی نوجوانوں کی زندگیوں سے کھیلنا پڑے۔ اس ٹولے کے نزدیک کسی چیز کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اہمیت صرف اقتدار کی ہے۔ بات پلیٹ لیٹس سے شروع ہو کر پتھروں تک آن پہنچی ہے۔ نیب پیشی کے موقع پر ان پتھروں نے ایک مرتبہ مریم بی بی کی سوچ کو واضح کیا ہے۔ وہ شروع سے اب تک اداروں کو متنازع بنانے کے مقصد کے تحت کام کر رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جیسے وہ ووٹوں کے ڈبے گھروں سے لے کر نکلتے تھے ویسے ہی پتھر بھی گھر سے لے کر نکلے ہیں۔ جب سے ان کی حکومت گئی ہے گوشہ نشینی میں ہیں۔ جن باتوں کا انہیں جواب دینا چاہیے اس پر بھی جواب دینے کے بجائے سوالات کرتی رہتی ہیں۔ تفتیشی اداروں سے تعاون کے بجائے قانون ہاتھ میں لینے اور اپنے تحفظ کے لیے مجبور لوگوں کو ڈھال بنانے کا فن انہیں خوب آتا ہے۔ یہ سارا ڈرامہ اس لیے کیا گیا ہے کہ نیب دفتر نہ جانا پڑے بلکہ باہر سے ہی واپسی ہو جائے۔ اس میں کامیابی تو ہوئی ہے لیکن ایسے منفی ہتھکنڈوں سے سچ کو کب تک چھپایا جا سکتا ہے۔ کیا حکمران طبقہ ملکی اداروں کو جوابدہ نہیں ہے، کیا ان شہزادے شہزادیوں سے سوال جواب نہیں ہو سکتے، کیا یہ قانون سے بالاتر ہیں؟؟؟
میاں نواز شریف کے خاندان اور مرد حر آصف علی زرداری میں یہی بنیادی فرق ہے۔ یہی نیب والے آصف علی زرداری کو گرفتار کرنے بھی گئے تھے۔ آصف علی زرداری نے کوئی مزاحمت نہیں کی، کارکنوں کا اکٹھا کر کے قانون کا مذاق نہیں بنایا بلکہ انہوں نے نیب ٹیم کو کھانا کھلانے کی ہدایت کی اور نیب افسران سے کہا کہ میرا بیگ تیار ہے آپ کھانا کھائیں مجھے تیاری کے لیے پندرہ منٹ دیں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔ دوسری طرف شریف خاندان ہے۔ میاں نواز شریف لندن بیٹھے ہیں۔ شہباز شریف ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے عدالتوں میں پھر رہے ہیں۔ محترمہ خود خاموشی سے زندگی گذار رہی ہیں۔ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ خوش قسمتی ہے کہ آپکو ایسی حکومت ملی ہے جو عوام کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرنے اور اپنے بہتر منصوبوں کو بھی عوام کے سامنے اچھے انداز میں پیش کرنے میں ناکام ہے۔ حکومت اس لیے خوش قسمت ہے کہ اسے ایک ایسی کمزور اپوزیشن ملی ہے جس کی کوئی سمت نہیں ہے۔ کوئی سوچ نہیں ہے عوامی ایشوز ہر بات کرنے کے لیے وقت ہے نا ہی عوامی مسائل اپوزیشن کی ترجیحات میں شامل ہیں۔ اس لیے یہ دونوں کی خوش قسمتی اور عوام کی بدقسمتی ہے کہ ان کا مستقبل ایسے سیاست دانوں کے ہاتھ ہے جنہیں عوامی مسائل کا ادراک ہی نہیں ہے۔