کرسی کیلئے موت
3 مئی1958 ء کو سلطان الدین احمد کو حکومت پاکستان نے مشرقی پاکستان میں بطور گورنر تعینات کیا اس ذمہ داری سے پہلے وہ چین میں پاکستان کے سفیر تھے وہ ایک اعلیٰ پائے کے منتظم اور بہت ہی ذمہ دار انسان تھے لیکن ان کا دور حکومت سیاسی لڑائیوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اس دور میں مشرقی پاکستان میں کرشک سرامک پارٹی اور عوامی لیگ کا عروج تھا اور یہ دونوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کا خون پینے کو تیار تھیں جبکہ مسلم لیگ کا مشرقی پاکستان میں وجود مٹ چکا تھا۔ ان دونوں جماعتوں کی طاقت عموماً برابر ہی رہتی تھی لیکن ہندو اقلیت کے نمائندے اس صورتحال سے بڑے خوش رہتے تھے۔ وہ پیسے لے کر کبھی کے ایس پی کے ساتھ مل جاتے تھے تو کرشک سرامک پارٹی کی حکومت بن جاتی تھی اور کچھ دنوں کے بعد پھر رشوت لے کر عوامی لیگ کے ساتھ مل جاتے تھے تو کے ایس پی کی حکومت ٹوٹ جاتی تھی اور عوامی لیگ کی حکومت بن جاتی تھی۔ یہ کھیل جاری رہتا اور ہر پندرہ دن بعد مشرقی پاکستان میں نئی حکومت آ جاتی۔
18 جون 1958 ء کو مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی اکثریت اقلیت میں بدل گئی اور ان کی حکومٹ ٹوٹ گئی۔ اگلے روز عطاء الرحمٰن نے گورنر کو عوامی لیگ کا استعفیٰ پیش کر دیا۔ 20 جون 1958 ء کو کرشک سرامک پارٹی کے سربراہ ابوحسین سرکار گورنر کے پاس آئے اور انہوں نے گورنر سے مطالبہ کیا کہ ایوان میں کے ایس پی اکثریت میں آ گئی ہے۔ لہٰذا ان سے وزارت اعلیٰ کا حلف لیا جائے۔ چنانچہ ابوحسین سرکار سے وزارت اعلیٰ کاحلف لیا گیا اور مشرقی پاکستان میں کرشک سرامک پارٹی کی حکومت بن گئی۔ ابوحسین سرکار صرف تین دن وزیراعلیٰ صوبہ مشرقی پاکستان رہے کہ پھر اطلاع آئی کہ ابو حسین سرکار کے خلاف ایوان میں عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی ہے جس کے نتیجے میں حکومت کے حق میں142 ووٹ پڑے ہیں اور مخالفت میں 156 ووٹ آئے ہیں اور اب ابو حسین سرکار وزیراعلیٰ نہیں رہے۔ اسی شام کو عوامی لیگ کے سربراہ حسین شہید سہروردی اپنے ساتھ عطاء الرحمٰن خان کو لے کر گورنر کے پاس آئے اور اپنی اکثریت دکھا کر حکومت کرنے کا پروانہ حاصل کرلیا۔ مرکزی حکومت مشرقی پاکستان میں سیاستدانوں کی قلابازیاں دیکھ کر بڑی پریشان تھی۔ آخرمرکزی حکومت نے ایک ماہ کیلئے مشرقی پاکستان میں آئین کی دفعہ 193 کے تحت گورنر راج نافذ کر دیا اور پیر احسن الدین ایک سول افسر کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ مشرقی پاکستان جا کر کرشک سرامک پارٹی اور اس کی مخالف سیاسی جماعت عوامی لیگ کی تعداد کا تعین کرے اور یہ رپورٹ دے کہ حقیقی اکثریت کس جماعت کے پاس ہے۔ اس کے علاوہ ہندو ممبران کا رجحان دیکھے کہ وہ کس جماعت کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں اور کس جماعت کو حکومت میں دیکھنا چاہتے ہیں؟ چنانچہ گورنر نے دونوں جماعتوں کو یہ حکم دیا وہ اپنے ممبران کو لائیں اور ان کا نام گورنر کی فہرست میں درج کرا کے اپنی اکثریت ثابت کریں چنانچہ گورنر ہاؤس میں سیاسی بکروں کی گنتی شروع ہوئی کہ کس چرواہے کا ریوڑ بڑا ہے۔
دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے بھاگ دوڑ شروع کی۔ ایک صبح عبداللطیف بسورس جو کے ایس پی کے وزیر خوراک تھے ایک بوڑھے ایم پی اے‘ رکن علی کو گورنر ہاؤس لائے اور اس بوڑھے نے بیان دیا کہ وہ کے ایس پی کا رکن ہے۔ چنانچہ رکن علی کا نام کے ایس پی کی فہرست میں لکھ کر اس کے دستخط لے لئے گئے۔ اسی دن کے غروب ہونے کے بعدرات کو گیارہ بجے دو گاڑیاں گورنر ہاؤس میں آئیں اور ایک گاڑی سے پہلا آدمی جو نمودار ہوا وہ شیخ مجیب الرحمٰن جنرل سیکرٹری عوامی لیگ تھا اس نے ایک ہاتھ میں بید تھام رکھا تھا اور دوسرے ہاتھ میں اسی بوڑھے رکن علی کی گردن پکڑ رکھی تھی جو صرف ایک لنگی میں وہ حواس باختہ گورنر کے سامنے پیش کیا گیا اور وہ بوڑھا کہہ رہا تھا کہ صبح کے ایس پی والے مجھے اغوا کر کے لائے تھے۔ اب میں ’’اپنی‘‘ عوامی لیگ کے ساتھ آیا ہوں لہٰذا میرا نام کے ایس پی کی فہرست سے کاٹ کر عوامی لیگ کے حامیوں میں درج کیا جائے۔ گورنر نے مسکراتے ہوئے کہا صبح جب تم اغوا ہو کر آئے تھے تمہارے کپڑے بھی ٹھیک تھے اور تم ہوش میں بھی تھے۔ اب تمہارے ہونٹ پھٹے ہوئے ہیں اور شیخ صاحب کے ہاتھ میں پکڑا ہوا بید تمہاری کہانی سنا رہا ہے۔ اس کا نام دوسری فہرست میں درج کر لیا گیا لیکن مرکزی حکومت کا یہ طریقہ ناکام رہا اور مشرقی پاکستان کو سیاستدانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر گورنر راج اٹھا لیا گیا۔
25 دسمبر1958 ء کو ڈھاکہ میں اجلاس شروع ہوا‘ حکومت کو معمولی اکثریت حاصل تھی سپیکر عبدالحکیم نے حکومت کے چھ وزراء کو نااہل قرار دے کر حکومت کی تعداد اقلیت میں بدل دی۔ اچانک حکومت کے بندے اٹھے اور انہوں نے سپیکر کو اتنا پیٹا کہ عبدالحکیم مسلسل تشدد سے بیہوش ہو گیا۔ وہ بوری کی طرح سپیکر کو اٹھا کر باہر پھینک آئے۔ اسکے بعد ڈپٹی سپیکر شاہد علی نے سپیکر کی کرسی سنبھالی‘ شاہد علی حکومت کا حامی تھا اس نے ان چھ نااہل وزیروں کے ووٹ بحال کر دئے اور حکومت کو دوبارہ اکثریت دلا دی۔ اب حزب اختلاف نے آہنی مائک اور وہ ڈنڈے جن پر پردے لٹکے ہوئے تھے اکھاڑ کر شاہد علی ڈپٹی سپیکر پر پل پڑے اور شاہد علی کو اس وقت تک مارتے رہے جب تک وہ ادھ مر نہ گیا۔ یہ اقتدار کی چھینا جھپٹی کے نتیجے میں اسمبلی میں پہلی موت تھی ۔ مشہور انگریزی رسالے Time نے چھ اکتوبر 1958 ء کی اشاعت میں اس حوالے سے Death in the chair کے عنوان سے ایک مضمون لکھا اور اس میں پاکستانی سیاستدانوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔ دوسری طرف مغربی پاکستان میں بھی سیاستدانوں نے اودھم مچا رکھا تھا اور یہاں صبح و شام وزیراعظم تبدیل ہو رہے تھے۔ کبھی سرفیروز خان نون‘ کبھی آئی آئی چندریگر اور کبھی حسین شہید سہروردی۔ اس تماشے کو دیکھ کر بھارت کے پریس نے پھبتی کسی کہ ہمارا وزیراعظم اتنے لباس تبدیل نہیں کرتا جتنے وزیراعظم پاکستان میں تبدیل ہو رہے ہیں۔
آخر سیاستدانوں کے جھگڑوں سے تنگ آ کر صدر سکندر مرزا نے سات اکتوبر 1958 ء کو آئین کو منسوخ کیا اور ملک میں مارشل لاء نافذ کر کے ملک کو فوج کے حوالے کیا۔ اس قدم اٹھانے کے علاوہ سکندر مرزا کے پاس اور کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔ ہم یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ جتنے بھی مارشل لاء ملک میں آئے ہیں ان سب کو دعوت دینے والے سیاستدان ہی تھے۔ فوج بار بار جمہوریت کی مدد کرتی رہی ہے لیکن ہر بار جمہوریت پسند سیاستدان ہی جمہوریت کو قتل کرتے رہے ہیں۔ اس ملک میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ملک کی بری تقدیر بن گئی ہے۔ آج بھی ملک اسی قسم کی صورتحال سے دوچار ہے‘ عوام کو اب یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ووٹ اور ووٹر کی توہین کون کر رہا ہے۔