شہر ونواح میں جرائم کی افسوسناک صورتحال
ڈی پی اوعمران یعقوب پنجاب پولیس ضلع ڈیرہ غازیخان کے نئے کپتان بن کر تشریف لائے ہیں۔ سماجی حلقوں کی جانب سے ضلع ڈیرہ غازی خان میںاُن کی پوسٹنگ کو سراہا جا رہا ہے ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کپتان کے سب سے زیادہ مخالف اُس کے اپنے ماتحت وہ چند کرپٹ اہلکارہوتے ہیں جنہیں اپنے غیر قانونی دھندوں کے بند ہونے کا خدشہ لاحق ہوجاتا ہے۔ ڈی پی اونے بھی ضلع ڈیرہ غازی خان کے متعلق بریفنگ حاصل کر لی ہوگی نیز ایک اہم انکوئری کے ضمن میں پہلے بھی یہاں تشریف لا چکے ہیں۔ انہیں سرکاری بریفنگ میں یقینی طورپر سب اچھاکی رپورٹ پیش کی گئی ہوگی۔مگر کچھ حقائق اِس ضلع کے متعلق ایسے ہیں جنہیں شائد سرکاری بریفنگ میںجان بو جھ کر پوشیدہ رکھا گیا ہو۔ کرپشن سے پاک پاکستان بنانے کے لیے معاشرتی برائیوں کی بے نقابی پر مصلحت پسندی کی دُھول کو اب صاف کرنا ہوگا۔ ہر ادارے اور ہر طبقہ میں ہمہ قسمی کرپشن و بد عنوانیوںکا خاتمہ کرنا ہوگا ورنہ پاکستان میں تبدیلی کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔ ضلع ڈیرہ غازیخان جنوبی پنجاب کا پسماندہ ترین اور حساس ترین ضلع ہے۔ یہاںجرائم کی شرح کافی زیادہ ہے۔ جس کے محرکات میں اِس کا جغرافیائی محل وقوع ، کم شرح خواندگی ، اسلامی تعلیما ت کا فقدان، معاشرتی بے راہ روی سمیت پولیس کی چند کالی بھیڑوں کی جرائم پیشہ افراد کو پشت پناہی کا حاصل ہونا شامل ہے۔یہاں تھانوں میں ایس ایچ او شپ کی بولی لگتی ہے۔ جو جتنا کرپٹ ہے وہ اُتناہی اِس ضلع میں کامیاب ہے۔جرائم پیشہ افراد کبھی بھی قانون سے طاقتور نہیں ہوسکتے مگر انہیں اِس ضلع میں پولیس کے چند کرپٹ عناصر نے طاقتور بنا دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے اندرون ملک پولیس گشت کرتی ہے تو شہری سکون کی نیند سوتے ہیں۔ پولیس کے اُ ن1400 سے زائد شہدا کو سلام جن کا یادگاری دن اِسی ماہ4 اگست کو منایا گیا ہے۔بے شک اِن شہیدوں کی موت کی بناپر قوم کی حیات بقا میں ہے۔ مگر صد افسوس چند کرپٹ پولیس اہلکار اُن شہدا کی قربانیوں کو اپنے کالے کرتوں کی بناپر ضائع کر دیتے ہیں۔ضلع ڈیرہ غازی خان میں موٹر سائیکل ڈکیتی اور دوران ڈکیتی گولی مارنے کا جرم سب سے زیادہ ہے۔ جس کے پس پردہ آوازیں ہیںکہ بعض ایس ایچ او صاحبان کے یہ پالے ہوئے گروہ ہوتے ہیں۔ شہر میں سرعام پرچی جوا ، منشیات فروشی اور عصمت فروشی کے اڈے قائم ہیں ۔ کون ہے جس کو خبر نہیںکہ شہر کے بلاک نمبر 10، بلاک نمبر Fمیں سرعام پرچی جوا اور کرکٹ جوا ہوتا ہے۔ اور قمار باز سرعام دعوی کرتے ہیںکہ وہ ٹاوٹوں سمیت متعلقہ تھانہ جات اور سی آئی اے سٹاف کو باقاعدہ منتھلی پہنچاتے ہیں۔اِن لوگوںپر درجنوں مقدمات درج ہیں مگر انہیں آج تک گرفتار نہیں کیا جاتا۔ پولیس ہمیشہ آخر کیوں خاموش رہتی ہے۔؟اِس کے علاوہ شہر میں سود اور ہنڈی کا کاروبار بھی پولیس کی پشت پناہی میںسرعام چل رہاہے۔ کچھ عرصہ سے ضلع بھر میں ڈکیتوں کی شرح بڑھ گئی ہے آخر کیوں؟ عوام کا کہناہے بعض کہ ایس ایچ اوز صاحبان کی آمدن اب یہی ڈکیتیاںرہ گئی ہیں کیونکہ قتل کے مقدمات تفتیشی افسران کے پاس اورزناء کے کیسزپولیس لائن کی انوسٹی گیشن ٹیم کے پاس شفٹ ہو جاتے ہیں۔ باقی ماندہ ڈکیتیاں اور یہ اڈے رہ گئے ہیں جن سے بعض ایس ایچ او صاحبان خرچہ پانی پورا کرتے ہیں۔ عمومی طور پر یہاں نوے فیصدمقدمات درج نہیں ہوتے ۔اگرمقدمات درج کرتے ہیںتوبے گناہ لوگوں کوشامل کر دیا جاتاہے۔ پھر ان بے گناہوں کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے لیے بھاری رقم دینی پڑتی ہے اور اگر ڈاکوئوں کو گرفتار کیا جاتا ہے تو اُن پر برآمدگی نہیں ڈالی جاتی۔ بغیر برآمدگی کے چالان کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر باامر مجبوری برآمدگی ڈالنا ضروری ہو تو پھر مدعی کو راضی کرکے عدالت میں بیان دلوایا جاتا ہے۔ اگرمختلف تھانوں میں ایک سال تک تعینات رہنے والے ایس ایچ اوز صاحبان کے اثاثہ جات کی چھان بین سمیت اِن کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ظاہر ہو جائے گا۔ بعض پولیس افسران کے کال ڈیٹا کو چیک کرایا جائے تو اشتہاریوں کے یارانے ظاہر ہوںگے۔ یہی وجہ ہے کہ ضلع ڈیرہ غازیخان میں اشتہاریوں کی لسٹ روز بروز بڑھتی جا رہی ہے ۔ کبھی بھی اِس لسٹ میں شامل ناموںکو قانون کی گرفت میں لانے کی مخلصانہ کوشش نہیں کی گئی۔ جدید ٹیکنالوجی کی سہولیات کے باوجود یہاں کرپٹ افسران ، ڈکیٹ اور اشتہاری افراد قانون کے ساتھ سرعام آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔ معاشرتی بے راہ روی نے پورے معاشرے کا سکون برباد کر دیا ہے۔ جب عزت و ذلت کا مالک رب کائنات ہے تو پھر اِن جرائم پیشہ افراد سے ڈرنا بے معنی ہے۔اہلیان شہر نئے ڈی پی او ڈیرہ غازی خان سے آس لگائے ہوئے ہیں کہ وہ نئے پاکستان کی خاطر تمام جرائم پیشہ عناصر خواہ اُن کا تعلق اشرافیہ سے ہے ‘ سب کو قانون کے دائرے میں لائیں گے ۔ آ پ کے اِس جہاد میں انشاء اللہ اب تمام باشعور لوگ اور باشعور اور مخلص کمیونٹی آپ کی ہم رکاب ہو گی۔