محافظ نظریہ پاکستان
اللہ رب العزت کا بے حد و بے شمار شکر ہے کہ ہم ایک دفعہ پھر جشن آزادی کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ پاکستان اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان ہے پاکستان اولیائے کرام کا فیضان ہے۔ لاکھوں شہیدوں کے لہو نے اس کی بنیادوں کو مضبوط کردیا ، اور اسے ناقابل تسخیر بنا دیا ہے ۔ حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کے عظیم رہنماﺅں کی کاوشوں سے حضرت علامہ محمد اقبالؒ کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا اور ایک عظیم الشان اسلامی مملکت دنیا کے نقشہ پر معرض وجود میں آئی جس کی بدولت ہم آزاد اور باوقار زندگی بسر کر رہے ہیں ۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ملک عزیز پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی۔نظریہ پاکستان ہی اس کی اساس اور اس کی روح ہے لازم ہے کہ اس نظریہ کو زندہ رکھا جائے اور آنے والی نسلوں کو قیام پاکستان کی وجوہات اور اس کے اغراض و مقاصد اور استحکام پاکستان کی ضرورت کا ادراک رہے۔
نظریہ پاکستان کے احیاءاور فروغ کے لئے جس ہستی نے اپنی زندگی وقف کر دی اور آخری سانس تک اپنے مشق پر ڈٹے رہے وہ محافظ پاکستان اور محافظ نظریہ پاکستان جناب مجید نظامی کی ذات ہے ۔ آپ آبروئے صحافت کے ساتھ محسن پاکستان بھی ہیں۔ استحکام پاکستان کے حوالے سے آپ کی خدمت سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں۔آپ نے نظریہ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوںکی سازشوں کو نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ ان کے سدباب کے لئے بروقت ٹھوس اقدامات کیے اور ان کے راستہ میں ایک مضبوط دیوار بن گئے یوں صحیح معنوں میں محافظت کا حق ادا کردیا۔آپ نے شہدائے پاکستان کی قربانیوں کو منظم طریقہ سے روزنامہ نوائے وقت کے ذریعے عوام تک پہنچایا اور یہ سلسلہ آج بھی ” میں نے پاکستان بنتے دیکھا“ کے نام سے شائع ہو رہا ہے۔ تحریک پاکستان کے عظیم کارکنوں کے کارناموں سے قوم کو روشناس کروایا۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور اس کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے پروگرام اس کی عمدہ مثال ہیں۔ جناب مجید نظامی درد دل رکھنے والے پاکستانی تھے آپ نے ہمیشہ پاکستان کے مفادات کو ترجیح دی۔ اہم قومی معاملات میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا عوام اور حکومت کی رہنمائی کی۔ یہ واقعہ تاریخ کا حصہ بن گیا ہے کہ جب پہلے ایٹمی دھماکہ کے حوالے سے حکمران شش و پنج میں مبتلا تھے آپ کے ایک جملہ ” دھماکہ کر دیں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کردے گی“ نے فیصلہ کن کردار ادا کیا اور پاکستان ایٹمی ممالک کی صف میں کھڑا ہوگیا۔
جناب مجید نظامی کی رحلت سے قوم ایک عظیم مصلح مدبر اور دانشور سے محروم ہوگئی اور شعبہ صحافت میں ایک ایسا خلا پیدا ہوا کہ جو مستقبل قریب میں پر ہوتا نظر نہیں آتا مجھے یقین ہے اگر آج مجید نظامی زندہ ہوتے تو موجودہ بحران میں اپنا کردارضرور ادا کرتے۔آج جب ہم جشن آزادی کی تیاریوں میں مصروف ہیں تو ہمیں اپنے اس محسن کو اپنی دعاﺅں میں ضرور یاد رکھنا چاہیے اللہ پاک آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کا مشن جاری و ساری رہے۔ آمین
ہمیں قیام پاکستان کے مقاصد کو نہیں بھولنا چاہیے ۔ جناب مجید نظامی کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے استحکام پاکستان کے لئے اپنے ذاتی مفادات کو نہیں ملکی مفادات کو ترجیح دینی چاہیے پاکستان ہے تو ہم ہیں : ....
صمیم قلب سے یہ ارادہ کریں کہ
ملک کو ہم عظیم سے عظیم تر بنائیں گے