ایک طرف جبکہ بھارت کے جبر و استبداد کیخلاف نہتے کشمیری اپنی آزادی کی جدوجہد میں خون کے نذرانے پیش کر رہے ہیں تو دوسری طرف بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے عوامی رائے کو اس جدوجہد سے متنفّر کرنے کیلئے ایک نیا کھیل شروع کردیا ہے۔ انتہا پسندی کی جو لہر بی جی پی کی حکومت میں آنے کے بعد شروع ہوئی ہے، اس کا رخ بجائے کسی داد رسی کی بات کرنے کے، جو کچھ مظلوم کشمیریوں کو ابھی ملا ہوا ہے اس کے خاتمے کی بحث شروع کردی گئی ہے۔ لگتا ہے کہ ملک میں بھڑوں کا چھتہ کھول دیا گیا ہے۔ تمام لوگ اس بحث میں حصہ لے رہے ہیں اور کیونکہ انتہا پسندی کی کرنسی خوب چلتی ہے۔ لہذا ایک سے بڑھ کر ایک زبان اس مسئلے کو انتہا پسند نقطہ نظر سے آگے بڑہا رہی اور میانہ رو آوازیں دبتی جا رہی ہیں۔ یہ مسئلہ آئین کے آرٹیکل 35A کا ہے جو جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق ہے۔ سپریم کورٹ میں ایک غیر سرکاری تنظیم “ہم شہری” نے درخواست کی ہے کہ یہ آرٹیکل آئین کے بنیادی ڈہانچے کے خلاف ہے لہذا اس کو خلاف آئین قرار دے کر منسوخ کیا جائے۔ گو یہ درخواست ایک عرصے سے التوا کا شکار تھی لیکن اب سپریم کورٹ نے اس کو پہلے 7 اگست اور اب 27 اگست کو سننے کا اعلان کیا ہے۔ کشمیر جہاں پہلے ہی آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے، وہاں اس خبر نے بے چینی اور اضطراب کی ایک نئی لہر پیدا کردی ہے اور پر تشدد احتجاج کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا جس میں کئی قیمتی جانوں کا ضیاع بھی ہوگیا ہے۔ اس مضمون میں ہم اس آرٹیکل کا تاریخی پس منظر اور اس کی اہمیت اور اس کی منسوخی کے مضمرات پر گفتگو رکھیں گے۔
برطانوی راج میں جموں کشمیر کی حیثیت ایک نیم خود مختار ریاست کی تھی۔ ڈوگرا راج میں مقامی لوگوں نے ریاست میں باہر سے آکر آباد ہونے والوں کو روکنے کیلئے مہاراجہ سے دیگر علاقوں سے آنے والوں پر کچھ پابندیوں کا مطالبہ کیا۔ 1927 اور 1932 میں مہاراجہ نے دو قوانین نافذ کئے جس میں مستقل رہائش پذیر افراد کی تعریف بیان کی گئی اور ساتھ ہی ان کے حقوق اور مراعات کا بھی تعین کر دیا گیا۔ ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت کے باوجود مہارجہ ہندو تہا۔ تقسیم ہند کے موقع پر اس نے بھارت سے ساز باز کرکے ریاست کا الحاق بھارت کے ساتھ کردیا۔ الحاق کی دستاویز پر 27 اکتوبر کو دستخط ہوئے تھے جبکہ دو دن قبل بھارتی فوجیں سرینگر میں اتار دی گئی تھیں اس کے ساتھ ہی پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پہلی جنگ کا آغاز ہوگیا اور ریاست کا کچھ حصہ پاکستان کے کنڑول میں آگیا جبکہ اس کے وسیع تر علاقے پر بھارت قابض ہوگیا۔ بھارت اس مسئلے کو لیکر خود اقوام متحدہ میں گیا اور سلامتی کونسل کی اس قرارداد سے اتفاق کیا کہ وادی کے عوام کی منشا کو استصواب رائے کے انعقاد کے ذریعے طے کیا جائے۔ اس کے بعد جنگ روک دی گئی۔
بعد ازاں جب نومبر 1949 میں بھارت کا آئین منظور ہو رہا تھا تو کشمیر کی حیثیت کو مہاراجہ کی دستاویز الحاق تک محدود کرکے آئین کے اس حصے میں رکھ دیا گیا جو عارضی، انتقال اور خصوصی اہتمام کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ آئین کا آرٹیکل 370 ہے جو بھارتی پارلیمنٹ کو کشمیر سے متعلق قانون سازی کے بہت محدود اختیارات دیتا ہے جو دستاویز الحاق کے مطابق ہیں جو کہ آئین میں منسلک بھی کردی گئی ہے۔ جبکہ صدر کو اختیار ہے کہ وہ ریاست کی اسمبلی کے مشورے سے آئین کے ان حصوں کے اطلاق کا تعین کرے جو ریاست پر لاگو ہونگے۔ مزید براں اس آرٹیکل کو صرف اس صورت میں منسوخ کیا جا سکتا ہے جب اس منسوخی کی ریاستی اسمبلی سے منظوری لیجائے۔ 20 لیکن بھارت کی نیت ریفرنڈم کرانے کی نہیں تھی۔ اس نے سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے ایک ایسا عمل شروع کردیا جس سے ”عوامی منشا“ کی من پسند تعبیر نکل آئے جس سے دنیا کو باور کرایا جاسکے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں موجود ’عوامی منشا‘ متبادل طریقے سے معلوم کرلی گئی ہے، لہذا اب ریفرنڈم کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس اسکیم کو نافذ کرنے کیلئے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے شیخ عبداللہ اور ان کے ساتھیوں پر دباو¿ ڈال کر ریاست کی آئین ساز اسمبلی کو بلانے کا فیصلہ کروا لیا، جو 1951 میں قائم ہوگئی، جس میں شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور ان کے حمائتی بلامقابلہ منتخب ہوگئے۔ لیکن نہرو کو پھر خیال آیا کہ اسمبلی کو اپنا کام ختم کرنے میں وقت لگے گا جبکہ سفارتی سطح پر ایک ایسے بیانیہ کی فوری ضرورت ہے جو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے بھارت و پاکستان کی طرف سے جو دباو¿ آ رہا ہے اس کو زائل کرسکے۔ اس مقصد کیلئے ایک اور نئی چال چلی گئی جس میں نہرو نے شیخ عبداللہ کو دہلی بلایا اور کہا کہ آئین ساز اسمبلی بالاخر جو قراداد منظور کرے گی اس کا ایک خاکہ ہم آپس میں بنا لیتے ہیں تاکہ اس پر اتفاق رائے پیدا کر لیں۔
مذاکرات کے اختتام پر جولائی 1952 معاہدہ دہلی پر دستخط ہوگئے۔ اس معاہدے کے اہم نکات مندرجہ دیل ہیں: (1) ریاست تمام امور میں مکمل خود مختار ہوگی سوائے دفاع، خارجہ اور مواصلات کے امور میں(2) ریاست کے شہری بھارت کے شہری ہونگے، لیکن ریاست کو یہ حق کے وہ اپنے شہریوں کی تعریف اور ان کے خصوصی حقوق کا تعین کرے، جیسا کہ 1927 اور 1932 میں مستقل رہائشیوں کے لیے بنائے گئے تھے(3) ریاست کا اپنا جھنڈا ہوگا جبکہ بھارت کا جھنڈا بھی استعمال کیا جائیگا (4) بھارتی آئین میں فراہم کردہ بنیادی حقوق اس حد تک ریاست میں نافذ العمل ہونگے۔ جس قدر ریاستی اسمبلی متعین کریگی (5) سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار اپیلیں سننے تک محدود ہوگا(6) ایمرجنسی کے نفاذ میں مرکزی حکومت کو حاصل اختیارات صرف حالت جنگ میں موثر ہونگے لیکن اندرونی خلفشار کی صورت میں صرف اس وقت نافذ ہونگے اگر ریاستی حکومت اس کی درخواست کرے۔
جواہرلال نہرو نے اس معاہدے کو اپنی پارلیمنٹ کے سامنے رکھا اور اس کی حمایت میں ایک قراداد منظور کرائی اور شیخ عبداللہ سے بھی اس کا تقاضا کیا۔ لیکن شیخ عبداللہ واپسی پر اس معاہدے سے خوش نہیں تھے اور بالآخر وہ اس مقام پر پہنچ گئے کہ اس معاہدے کو منسوخ کرنا چاہتے تھے لیکن حکومت نے ان کو گرفتار کرلیا اور ریاستی اسمبلی سے جبراً ایسے آئین کو منظور کرا لیا جس کی تیسری شق جموں کشمیر کو بھارت کا حصہ تسلیم کرتی ہے لیکن اس بات کا کشمیر کے مسئلے کے حل میں کوئی خاص کردار نہیں ہے۔ درحقیقت اس تمام عرصے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ان تمام اقدامات کی نہ صرف مذمت کی اور رد کر دیا بلکہ اپنی منظور شدہ قراردادوں کا اعادہ کیا اور واضح طور پر بتا دیا کہ مسئلہ کشمیر کا حل صرف لوگوں کی منشا کے مطابق ہوگا جو استصواب رائے کے انعقاد سے معلوم کی جائے گی۔ دوسری طرف دہلی معاہدے کی مندرجہ بالا شکل ایک آئینی ترمیم کے ذریعے 1954 نافذ ہوئی جس کو 35A کہا جاتا ہے اور جس کو صدر مملکت نے ان اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے جاری کیا ہے جو انہیں آئین کے آرٹیکل 370 میں دئیے گئے ہیں۔ لہذا یہ واضح ہے کہ 370 اور 35A باہم جڑے ہوئے ہیں اور ان کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہیں ہے۔( جاری ہے)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024