اتوار‘ 29ذیقعد 1439 ھ ‘ 12 اگست 2018ء
چائے والا باجوڑ سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب
یہ ایک اچھی روایت ہماری سیاست میں نظر آتی ہے کہ معاشرے کے سماج کے کچلے ہوئے پسے ہوئے طبقات میں سے بھی کچھ لوگوں کو ٹکٹ دیاگیا، اس بات پر پی ٹی آئی کو داد ملنی چاہیے ۔ ورنہ جہاں قدم قدم پرنوٹوں کے بیگ لے کر لوگ سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ خریدنے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں، وہاں ایک بے نوا چائے والے کی کیا حیثیت ، یہ وہی فراز والی بات نظر آتی ہے
فراز تو نے اسے مشکلوں میں ڈال دیا
زمانہ صاحب زر اور صرف شاعر تو
گل ظفر نے پارٹی کو تو مشکل میں نہیں البتہ پارٹی نے اسے ٹکٹ دی اور اس نے کامیاب ہو کر اس نظام کمسن کو ضرور مشکل میں ڈال دیا ہے۔اس طرح اگر ہماری تمام سیاسی جماعتیں مزدور ، کسانوں اور کم آمدنی والے طبقات کے لئے بھی”چونگے “ میں ہی سہی چند سیٹیں دان کردیا کریں تو بہت سے بے نوا بھی اپنے اپنے حلقے اور طبقے کی موثر نمائندگی کر لیںگے۔ بے شک گل ظفر کو آداب پارلیمنٹ قانون سازی اور پارلیمان میں کیا کرنا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ کا زیادہ علم نہیں ہوگا مگر سچ پوچھیں تو ہمارے بڑے بڑے سرمایہ دار چودھری، وڈیرے پارلیمنٹ ارکان کو کون سا ان باتوں کا پتہ ہے، وہ اکثر بھی تو بس جعلی ڈگریاں بنا کر یہاں آتے ہیں اور حاضری لگا کر یا غیر حاضر رہ کر بھی صرف نمبر پلیٹ لگا کر دل پشاوری کرتے ہیں۔ اصل بات اس تبدیلی کی ہے جو باجوڑ میں گل ظفر کی وجہ سے آئے گی جب وہ اپنے حلقے کے کچلے ہوئے محروم طبقات کے مسائل حل کرےگا۔
٭....٭....٭....٭
فضل الرحمن کی 14کو جشن آزادی نہ منانے کی در فنظنی
14اگست کوئی عام سیاسی دن نہیں یہ پاکستان کے قیام کی سالگرہ ہے۔ جو لوگ اس دن کی خوشی منانے سے گریزاں ہیں جن لوگوں کو یہ دن کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے وہ بے شک اپنا بوریا بستر لپیٹ کر اپنے من پسند کسی بھی آزاد ملک میں جا کر اپنی مرضی کی زندگی بسر کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں۔ کوئی انہیں نہیں روکے گا ، قیام پاکستان سے جن لوگوں کے دل جل بھن کر کباب ہوئے تھے جن لوگوں کے بڑے اس ملک کے قیام کو روکنے میں ناکام رہے تھے لگتا ہے وہ آج تک اس صدمے سے باہر نہیں نکلے۔ یہ جشن عالی شان ہے جو اس مرکز یقین شاد باد میں جو کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ہے، ہر سال منایا جاتا ہے اور تاقیامت منایاجا تا رہے گا۔ یہ تجدید نعمت کا دن ہے ، سیاسی اختلاف اپنی جگہ مگر اپنے ملک سے محبت سب پر فرض ہے ۔ 14اگست کو ہندﺅں اور انگریزوں کی غلامی سے نجات پاکر مسلمانوں نے یہ خطہ پاک حاصل کیا کوئی بدنصیب ہوگا جو اسکی خوشیاں نہیں منائے گا ، اپنے گھر والوں دوستوں احباب کو اس خوشی میں شرکت سے روکے گا ، ہار جیت الیکشن کا حصہ ہے ۔ دھاندلی کب نہیں ہوئی مگر کسی شکست خوردہ جماعت نے اتنا غلط بیان نہیںداغا جو مولانا فضل الرحمن نے ارشاد فرمایا گھر میں کسی کو تکلیف ملے تو کیا وہ گھر جلا دیتا ہے؟ دکھ تو اس بات پر ہے کہ میاں شہبازشریف بھی ان کی بات سے اتفاق کرتے پھر رہے ہیں ۔ محمود خان اچکزئی اور فضل الرحمن کا تو اپنا اپنا پرانا دکھ ہے ، یہ میاں صاحب کو کیا ہوا کہ ایک چوٹ برادشت نہیں کر پارہے۔
بشریٰ بی بی کے سابق شوہر نے بھی تیسری شادی کرلی
اب معلوم نہیں یہ جوابی کارروائی ہے یامقابلہ کہ خاور مانیکا نے بھی تیسری شادی رچالی ، عجب ملک ہے ہمارا ، جہاں قومی ترقی اورسوچ کی بجائے صرف شادیوں پر زور دیا جارہا ہے ، بچہ کام نہیں کرتا اس کی شادی کردیں بچہ کام پرلگ گیا اس کی شادی کردیں۔ بچہ جوان ہوگیا اس کی شادی کریں۔یہ فارمولا قومی مفاہمتی فارمولے کی طرح ہر جگہ چلتا ہے۔ معاملے یہاں تک ہی رہے تو چلیں کوئی بات نہیں مگر یہ جو اب دوسری اور تیسری شادی کی ریسیں لگ رہی ہے یہ قابل گرفت ہونی چاہئیں۔ عوام حکمرانوں کے نقش قدم پرچلتے ہیں ۔ مشہور مثال ہے ،”جیسا راجہ ویسی پرجا“ اب خدا نہ کرے اگر ہمارے بھیڑ چال والے معاشرے میں متول طبقے کے ساتھ ساتھ غریب الغربا بھی اس ریس میں شامل ہوگئے تو کیا ہوگا ۔ پہلے ہی کثرت اولاد کاجلوہ بھوک بے روزگاری اور مہنگائی کی فلم چلا رہاہے ۔ اب یہ کثرت ازدواج کا طربیہ کہیں کوئی نئی کہانی نہ سنانے لگے۔عمران خان نے پیرنی سے تیسری شادی جو اس کی دوسری شادی ہے ان کے شوہر خاور مانیکا نے اس صدمے سے باہر نکلتے ہی جوابی اقدام کے طور پرنئی شادی رچالی جو موصوف کی تیسری شادی ہے۔ اس طرح انہوں نے خان صاحب کا ریکارڈ برابر کرکے ثابت کردیا کہ شادیاں رچانا انہیں بھی آتا ہے۔ خان صاحب کے سہرے کے پھول کسی کے گلشن سے چرائے گئے تھے خاور مانیکا نے خدا نہ کرے کسی ہنستے بستے گھر میں نقب لگائی ہو۔ معلوم نہیں یہ بچے اپنے والدین کی نئی شادیوں کو ذہنی و قلبی طورپرقبول کر پائیں گے یا نہیں۔
٭....٭....٭....٭
پارلیمنٹ لاجز میں غیر قانونی قابضین کے خلاف کارروائی‘ 4 سے زائد فلیٹس خالی کرا لئے گئے
یہ قابض کوئی غنڈے نہیں ہیں جنہوں نے زبردستی پارلیمنٹ لاجز کے فلیٹس قبضہ میں لئے تھے۔ یہ سب وہ ارکان اسمبلی ہیں جو اب الیکشن ہار چکے ہیں۔ انہیں 3 مرتبہ نوٹس دیئے گئے مگر انکے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ان ارکان کی تعداد ویسے تو 52 ہے مگر سی ڈی اے والوں کا زور صرف 4 پہ چل سکا جن میں فاروق ستار اور جعفر اقبال بھی شامل ہیں۔ انکے فلیٹس کے تالے توڑ کر انہیں واگزار کرالیا گیا۔ اب دیکھنا ہے باقی 48 سے کب چابیاں چھینی جاتی ہیں۔ جب 4 کے تالے ٹوٹے تو باقی سب کو کیوں رعایت دی گئی۔ انکے تالے بھی توڑ کر قبضہ حاصل کیا جاتا تاکہ کسی کو ناانصافی کی دہائی دینے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ بہرکیف اب نئی پارلیمنٹ ارکان کیلئے ان فلیٹس کی قرعہ اندازی ہوگی۔ ان میں یہ تقسیم ہونگے مگر یہاں بھی ایک انار اور سو بیمار والی حالت ہے۔ کمرے تھوڑے ہیں اور بندے زیادہ۔ کہیں قرعہ اندازی سے پہلے ہی کوئی غیبی طاقت ان کی بندربانٹ نہ کر دے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں غیبی چیزوں کا اثر بہت ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ یہ فلیٹس ان غریب ایم این ایز کو دیئے جائیں جو اسلام آباد کے مہنگے ہوٹلوںکے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ ایسے تو چند ایک ہی ہونگے ورنہ سب اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانوں کے ہیں بس ذرا مفت کے مال کی عادت سی ہے۔اسکے ساتھ ہی شرط یہ بھی ہو کہ یہ ممبران ہر اجلاس میں باقاعدگی سے شریک بھی ہوں گے۔ اسمبلی میں آکے تنخواہ اور دیگر مراعاتیں ہضم کرنے کا سلسلہ اب ختم کر دینا چاہئے۔
٭....٭....٭....٭