دگرگوں معیشت کیا آئندہ تین ماہ میں عوام کی چیخیں نکل جائیں گی
2018کے الیکشن سے پہلے سیاسی حلقوں میں یہ بحث ہورہی تھی کہ ملک کے معاشی حالات اس قدر خراب ہوگئے ہیں کہ سیاسی جماعتیں حکومت بنانے کے تصور سے کانپ جائیں گی۔ لیکن تحریک انصاف نے یہ چیلنج قبول کیا ہے تو چاروں جانب سے ڈالروں کی برسات شروع ہوگئی ہے لیکن راوی پاکستان کے فنانشل مینیجرز کیلئے چین نہیں لکھتا۔ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر 33دن کے رہ گئے ہیں معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ ڈالر کی نیچی پرواز چین‘ سعودی عرب ‘آئی ایم ایف اور اسلامک فنڈز کی جانب سے 20سے 22 ارب ڈالر ملنے کے باوجودآئندہ تین ماہ اس قدر سخت ہوں گے کہ 20کروڑ عوام کی چیخیں عرش پر سنائی دیں گی آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے باعث حکمرانوں کو تیل بجلی گیس کے نرخ بڑھانا پڑیں گے۔جس کے ساتھ باقی اشیاء کے 25فیصد نرخ خودبخود ہی بڑھ جائیں گے سب سے زیادہ نرخ گیس کے بڑھیں گے ۔ نئی حکومت آئی ایم ایف سے 12ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کرناچاہتی ہے شاید آج تک کسی حکومت نے یکمشت اتنا قرضہ حاصل نہیں کیا آئی ایم ایف 12ارب ڈالر دینے کیلئے تیار ہے لیکن اس کی شرائط کڑی ہیں۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ ایک ایسے وقت آئی ایم ایف سے رجوع کررہا ہے جب امریکہ اورچین کی معاشی جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے امریکہ کو خدشہ ہے کہ آئی ایم ایف کا قرضہ چین کے پاس چلاجائے گا اس لئے امریکہ وزیر خزانہ نے تجویز دی ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کو چین کے قرضوں کی ادائیگی کیلئے قرضہ نہ دے۔اس وقت 80ارب ڈالر کا قرضہ ہے اورخزانہ خالی ہے کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ اور مالیاتی خسارہ بلندیوں کو چھو رہا ہے۔پاکستان پر اس وقت ادائیگیوں کیلئے کوئی دبائو نہیں لیکن آئندہ تین ماہ میں ادائیگیاں کرنا ہیں۔سابق وزیر خزانہ کا یہ کریڈٹ ہے کہ انہوں نے ڈالر کی بلند پرواز کو روکا۔ وہ کرنسی ڈیلرز سے پریشان تھے اوران کو روکناچاہتے تھے اسحاق ڈار کے زمانے میں اسٹاک مارکیٹ بلند ی پر گئی گردشی قرضہ کنٹرول ہوا۔ 24 جولائی کو اسٹیٹ بینک نے ڈالر بیرون ملک لے جانے پر پابندی لگادی اورحکم دیا کہ بیرون ملک ڈالر کا لین دین بنک سے ہوگا لیکن یکم اگست کو پاکستان سے لندن جانے والے کسی پاکستانی کا بیگ گم گیا جو کہ کسی ایماندار شخص نے پاکستانی تک پہنچایا۔ اس بیگ میں 16لاکھ روپے مالیت کے پائونڈ تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ ڈالر اورپائونڈ ملک سے لے جارہے ہیں کراچی سے دبئی جانے والی تمام پروازیں ڈالروں سے لدی پھندی جاتی ہیں۔ ماڈل ایان علی بھی یہ کام کرتی تھی اس کے ساتھ پورا گینگ تھا یہ دھندہ بدستورجاری ہے دبئی میں پاکستانیوں نے 10ارب ڈالر کی جائیدادیں خریدی ہیں ۔ جن میں سیاستدان شامل ہیں۔ ایک صنعتکار نے 10سال پہلے کراچی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ دبئی ہم نے بنایا ہے ہمارے پاس اتنی دولت ہے کہ ایک دبئی اوربناسکتے ہیں۔الیکشن سے پہلے ڈالر نے جب اڑان بھری تھی تو خدشات بہت بڑھ گئے تھے اورخیال تھا کہ ڈالر 140سے 150روپے پر جاکر رکے گا ۔ لیکن الیکشن کے بعد چین کی جانب سے ایک ارب ڈالر ملنے کے بعد ڈالر123پر آگیا۔ بعض حلقوں نے کہا کہ ممتاز سرمایہ کار عقیل کریم ڈھیڈی اوراسٹیٹ بنک نے مارکیٹ میں ڈالر پھیلائے تو ڈالر پر9روپے کم ہوگئے۔ ڈالر کے نرخ بڑھنے کی ایک وجہ کرنسی مارکیٹ میں مقامی سرمایہ کاری بھی تھی۔ ڈالر کے ریٹ بڑھنے کے ساتھ لوگوں نے دھڑا دھڑ ڈالر خریدنا اورذخیرہ اندوزی شروع کردی۔ لیکن جب ڈالر اچانک نیچے آیا تو سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوب گئے۔مارکیٹ میںڈ الر کی نایابی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ حکومت نے نان فائلر کے جائیداد خریدنے پر پابندی لگادی تھی تو نان فائلر نے ڈالر میں جائیداد خریدنا شروع کردیں اورمارکیٹ سے ڈالر سمیٹ لئے تھے۔حکومت کو اب تک کئی ارب ڈالر مل چکے ہیں 4ارب اسلامک فنڈز نے دیئے دو ارب ڈالر سعودی عرب دے گا ایک سال میں چین اب تک 6ارب ڈالر دے چکا ہے۔ مزید ایک ارب ڈالر اور دے گا۔ جنرل کیانی کو امریکہ نے ڈالر دیئے اورکہا تھا کہ وہ جہاں چاہے خرچ کریں۔ انہوں نے یہ رقم حکومت کو دیدی اورقبائلی علاقوں میں سڑکیں بنادیں۔ 2013میں نواز شریف حکومت کو سعودی عرب نے ایک ارب 50کروڑ ڈالر دیئے تھے۔ ادہر ادھر چند روز میں ڈالر کی قیمت 9روپے کم ہونے سے کرنسی ڈیلرز کے اربوں روپے ڈوب گئے۔ الیکشن کے دوسرے روز ڈالر نیچے آنا شروع ہوگیا تھا اس وقت پاکستان کی معیشت بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھجوائی جانے والی رقوم پرکھڑی ہے جوکہ 19ارب ڈالر سالانہ ہے یہ رقم بینکوں کے ذریعہ آتی ہے۔ تقریباً 11سے 15ارب ڈالر دوسرے چینل سے بھی آتے ہیں۔حال ہی میں زرمبادلہ کے ذخائر ایک ارب 35کروڑ 9لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جوکہ خوش آئند ہے اس دوران ڈالر بھی بڑی تعداد میں آگئے۔جمعہ کو انٹربنک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت مزید کم ہوگئی۔ فی الحال یہ بات خوش آئند ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں اورڈالرگررہا ہے۔ادھر اسٹاک ایکسچینج اب تک امریکی وزیر خزانہ کے بیان کے منفی اثرات سے نہیں نکل سکی امریکی وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو قرضہ دینے کی مخالفت کی تھی۔ الیکشن کے بعد اسٹاک مارکیٹ میں ایک دو دن استحکام آیا لیکن ایک سال سے اسٹاک مارکیٹ بدستور دبائو کاشکار ہے اور تیزی سے گررہی ہے۔جب نواز شریف برسراقتدار آئے تو اسٹاک مارکیٹ کا انڈیکس 28ہزار پوائنٹس تھا جوکہ 54ہزار پوائنٹس تک گیا اورمجموعی سرمایہ کاری 100کھرب سے بڑھ گئی تھی۔ لیکن اب اسٹاک مارکیٹ کا انڈیکس 42 ہزار پوائنٹس اورمجموعی سرمایہ کاری 86کھرب ہے۔ کچھ وقفہ کے بعد اب تمام معاملات ایک بار پھر سنچری کی جانب جارہے ہیں چند سال پہلے اس بات کا چرچا تھا سچن ٹنڈولکر ڈالر اورتیل کے نرخوں کی سنچری کب مکمل ہوگی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ڈالر تیل کے نرخوں اورسچن ٹنڈولکر کی سنچری ہوگئی لیکن تیل کی فی بیرل قیمت 37ڈالرفی بیرل تک گرگئی۔ اب پٹرول اورسی این جی کی سنچری ہونے والی ہے۔سینیٹ کو قائم کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ ملک میں بجلی کا گردشی قرضہ 1080ارب ہے اسحاق ڈار نے قرض لے کر پاورکمپنیوں کو 480ارب روپے ادا کئے تھے اب نئی حکومت کو ادائیگی کا جامع پلان بنانا ہوگا اوربجلی کی چوری روکنا ہوگی ایسے صارفین جن سے 400ارب روپے وصول کرنا ہیں ان کو بھی بجلی مل رہی ہے۔مہنگائی کا طوفان بدستور ملک کو لپیٹ میں لئے ہوئے ہے 10سال پہلے کراچی میں دودھ 25روپے لیٹر تھا اب100روپے لیٹر ہے آٹا 10روپے کلو تھا اب 45روپے کلو ہے حالیہ دنوں میں چینی کی قیمت بھی بڑھ گئی الیکشن سے پہلے دودھ 90روپے لیٹر تھا۔