عمران خان کیلئے طرز حکمرانی تبدیل کرنا ہی اصل چیلنج ہے
عمران خان کا موجودہ حالات میں برسراقتدار آنا نہائت امید افزاء ہے اورملک و قوم کیلئے خو ش قسمتی کی علامت ہے۔ عمران خان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اسے اقتدار سنبھالتے وقت متنازعہ نوع کے چیلنجز کا سامنا نہیں، اس کی سوچ اور فکر واضح ہے ایک طرف وہ مدینہ کی ریاست کا قائل ہے تو دوسری طرف وہ اپنے وطن کودنیا بھر میںہونے والی عمرانی،علمی اور معاشی ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹوکو بے آئین اور ٹوٹا ہوا ملک ملا تھا،محمدخان جونیجو کو مارشل لاء کے زیر سایہ حکومت ملی اورجلدہی انہوں نے اس سے نجات دلانا تھی،اس حوالے سے ان کا مشہورجملہ اخبارات کی سرخیوں کی زینت بنتا رہا،’’انشاء اللہ،مارشل لائ31 دسمبر1985 ء تک اٹھا لیا جائے گا۔‘‘اور ایسا ہی ہواتاہم اس سلسلے میں آٹھویں آئینی ترمیم ہوئی جو بعد از اں صدر کے ہاتھوں جونیجو اور بعد کی بعض حکومتوں کے قبل از وقت خاتمے کا ذریعہ بنی۔ اس وقت شریعت بل کے موضوع پر مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے احتجاج اور جد وجہد بھی جاری تھی،افغانستان کی سوویت روس کے ساتھ جنگ آخری مرحلے میں تھی جس میں پاکستان ہر لحاظ سے فریق اور شریک تھا ۔بے نظیربھٹو کو 1988 میں تقریباً اتنی ہی انتخابی کامیابی کے ساتھ اقتدار ملا تھا جتنی کہ پی ٹی آئی کواب حاصل ہوئی ہے ۔ اس وقت طویل مارشل لاء کے دوران پیدا ہوئے داخلی اور خارجی مسائل نے ملک کو گھیر رکھاتھا نیز انہیں شدید سیاسی اور نظری مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔عورت کی سربراہی کو قبول کرنا بھی روائتی طور پر مشکل عمل تھا البتہ مولانا فضل الرحمان نے آگے بڑھ کر ان کا ساتھ دیا ۔وہ اور ان کی والدہ مرحومہ حکومت کو اپنی کھوئی ہوئی میراث ہی سمجھتے تھے۔جس کے لئے انہوں نے اپنے حقیقی اور سیاسی انکلز کو خیرباد کہا اوراپنے نئے ہم خیال اور وفادار تلاش کرنے لگیں ۔ بعد ازاں نوازشریف کی وفاق میں پہلی منتخب جمہوری حکومت کے خاتمہ کیلئے انہوں نے تحریک چلائی اوراسی مذموم آٹھویں ترمیم کے ذریعے صدر غلام اسحٰق خان کو اس کے خاتمے پر مجبور کیا پھربھی جمہوریت کی چمپئن ہونے کے اپنے دعوے پر قائم رہیں۔جب نوازشریف کو اقتدار ملا تو بد قسمتی سے آئین کے الفاظ تو دیکھے لیکن زمینی حقائق کو نہ سمجھااور یہی غلطی تھی جسے وہ آخر تک سمجھ نہ پائے۔ حکومت ملی تو بیرونی امدادیں کم ہو چکی تھیں،وہ موٹرویز کے وسیع منصوبوں کوترقی کا بنیادی ذریعہ سمجھتے تھے،ٹرانسپورٹ،بسوں،کاروں اور گاڑیوں کی درامداورقسطوں پر فروخت کرکے بے روزگاری دور کرنا چاہتے تھے۔انہوں نے سرمایاکاروں کیلئے بہت سی مراعات کے اعلانات کئے جن کا فائدہ صرف ان کے سیاسی حلیف ہی اٹھا سکتے تھے۔ان کی لائی ہوئی روزگار اور خوشحالی کی اسکیمیں نیچے اترتے ہی دم توڑ جاتی تھیں۔البتہ بڑے تاجروں نے عوامی مسائل سے سرکار کی غفلت کا خوب فائدہ اٹھایا، خوراک، ادویات، الیکٹرک، لوہا، سیمنٹ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ سرکاری، جنگلاتی اور متروکہ اور اوقاف کی زمینو ں پرقبضے اور فروخت نے زور پکڑا اوراس معاملے میں نواز اور زرداری سب ایک ہو گئے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو ایسی کوتاہیوں پر نظر رکھنی ہو گی۔ اپنی حثیت سے بڑھ کرمعیار زندگی بسر کرنے والوں کا جائزہ لینے کیلئے صرف افسران نہیں پٹواری تک کے اثاثوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ بڑے بڑے حرام خوروں کا پتہ چل سکے۔کیا بھٹو،نوازشریف،بے نظیر بھٹو وغیرہ اپنی سوچ اور دماغی کاوش سے یہ کرپٹ نظام لئے تھے؟نہیں۔بلکہ یہ وہی فرسودہ نظام ہے جو انگریز کے دور سے غلاموں پر حکمرانی کرنے کیلئے وضع کیا گیا تھا اسے وہ اس لئے جاری رکھنا چاہتے تھے کہ ان لوگوںکا مقصد اس کو جاری رکھ کر ہی حاصل ہو سکتا تھا۔انہوں نے بلدیاتی نظام کو بھی کبھی چلنے نہ دیا حالانکہ وہاں ان کے اپنے ہی لوگ براجمان تھے۔
عمران خان کیلئے اصل چیلنج اس طرز حکمرانی کو تبدیل کرنا ہے جوقوم اور ملک کو گھن کی طرح کھا چکا ہے۔انتخاب جیتنے کے بعد اپنے پہلے خطاب میںعمران خان نے اسی عزم کا اظہار کیا ہے جو بلا شبہ مرض کی درست تشخیص اور صحیح علاج ہے۔ قوم کو اس مقصد کیلئے بڑھ چڑھ کر اس کا ساتھ دینا چاہئے۔جیساکہ اسلام کی تعلیم ہے کہ نیکی اور بھلائی کے کام میں دوسرے سے تعاون کرو اور برائی اوربے حیائی کاموں سے دور رہو۔ جہاں تک انتخابات کے ذریعے پاک صاف حکومت قیام کا تعلق ہے اس کا تعلق ہمارے ملک سے کم ،دنیا کی بڑی طاقتوں کی قبولیت پر زیادہ ہے۔اگر وہ چاہیں تو مصر اور الجزائر کی جائز طور پر بھاری اکثریت سے منتخب ہوئی حکومتوںکو تسلیم نہ کریںاور مارشل لاء لگانے کی حمائت کردیں اورجب چاہے جمہوری حکومتوںکا سیاسی اور معاشی طور پر گلا گھونٹ دیں۔رہی بات مسلم لیگ ن اور پی پی کے دھاندلی کے الزامات کی،کیا ان میں سے کوئی ایک بھی یہ دعویٰ کرنے کی جرائت کر سکتا ہے کہ اس نے ماضی میں کوئی بھی حکومت سازی کی یا انتخاب ایسٹیبلشمنٹ سے سمجھوتہ کئے بغیر جیتا ، آئی جے آئی اور این آر او کے معاملات تو سب کے سامنے آہی چکے ہیں۔لہٰذااقتدار میں رہی سیاسی جماعتوں کیلئے ایسے الزامات لگانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔