کانگریس کے رکن اور سابق بھارتی سفیر مانی شنکر آئرنے مودی سرکار کو باور کرایا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں شورش اور گڑ بڑ کی ذمہ داری پاکستان پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ حکومت مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان اور کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات بیک وقت شروع کرے۔ خود مختاری کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ کشمیریوں کو خودمختاری دی جا سکتی ہے۔ کشمیری حریت پسند مجاہد مظفر وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں اٹھنے والی عوامی احتجاج کی لہر گزشتہ ایک ماہ سے جاری ہے گزشتہ روز بھی بارہ مولا، اسلام آباد، پٹن، بانڈی پورہ اور کدال سمیت مقبوضہ وادی کے مختلف شہروں میں لوگوں نے ہزاروں کی تعداد میں ریلیوں، جلسوں اور مظاہروں میں حصہ لیاور اور پاکستانی پرچم اٹھا کر پاکستان زندہ باد اور جیوے جیوے پاکستان کے نعرے لگائے اور فوج، پولیس کی فائرنگ اور پیلٹ گن کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ قابض بھارتی فورسز کے تمام تر ظلم و تشدد کے باوجود احتجاج کی لہر میں کوئی کمی نہیں آئی۔ سرینگر میں سکھ برادری کے لوگوں نے کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے مظاہرہ کیا اور شمعیں روشن کیں اور ڈاکٹروں اور میڈیکل سٹاف نے پیلٹ گن فائرنگ سے نوجوانوں کو اندھا کرنے کیخلاف دھرنا دیا دہلی میں ایوان بالا، راجیہ سبھا میں کشمیر میں جاری تشدد کے حوالے سے اپوزیشن نے بھی اپنی توپوں کا رخ مودی سرکاری کی طرف کئے رکھا اور صورت حال کا جائزہ لینے اور کشمیریوں سے بات چیت کیلئے ارکان پارلیمنٹ کا وفد مقبوضہ کشمیر بھجوانے اور پیلٹ گن کا استعمال بند کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ٹویٹ پیغام میں کہا کہ کشمیر متنازعہ سیاسی مسئلہ ہے اسے محض امن و امان کا مسئلہ قرار دے کر طاقت سے نہیں دیا جا سکتا۔ کشمیری ترقیاتی کاموں سے زیادہ آزادی اور خودمختاری چاہتے ہیں۔ جس کا احساس مرکزی حکومت جتنی جلد کرے، اچھا ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024