سکیورٹی اداروں کی خامیاں دور کرنا کسی کی انا کا نہیں ملک کے مستقبل کا معاملہ ہے
سول ہسپتال کوئٹہ کے دہشت گردی کے المناک سانحہ کے چار روز بعد کوئٹہ جمعرات کے روز پھر بم دھماکے سے لرز اٹھا جس سے ہر طبقہ زندگی میں عدم تحفظ کا احساس مزید گہرا ہو گیا۔ زرغون روڈ کوئٹہ میں یہ بم دھاکہ ریموٹ کنٹرول سے کیا گیا جس میں چار پولیس اہلکاروں سمیت 14 افراد زخمی ہوئے جن میں دو زخمیوں کی حالت نازک بیان کی گئی ہے۔ دھماکے سے چند لمحے قبل وفاقی شرعی عدالت کے جج کی گاڑی جائے وقوعہ سے گزری تھی جس سے بادی النظر میں یہی عندیہ ملتا ہے کہ دہشت گردی کی اس گھنائونی واردات میں وفاقی شرعی عدالت کے فاضل جج ہی انسانیت کے دشمنوں کا ہدف تھے جو خوش قسمتی سے بچ گئے۔ پولیس ذرائع کے مطابق زرغون روڈ پر موجود فلائی اوور کے ساتھ دھماکہ خیز مواد نصب کیا گیا تھا۔ دھماکے کے بعد پولیس اور دوسری سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ وزیرداخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی کے بقول ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں پولیس موبائل کو نشانہ بنایا گیا۔
کوئٹہ میں 8 اگست کو دہشت گردی کی یکے بعد دیگرے ہونے والی دووارداتوں میں وکلائ‘ صحافیوں‘ پولیس اہلکاروں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں سمیت مجموعی طورپر 73 بے گناہ شہری سفاک دہشت گردوں کے جنونی عزائم کی بھینٹ چڑھ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور اتنے ہی زخمی ہوکر خون میں لت پت ہوئے۔ اس سانحہ نے جہاں پوری قوم میں دہشت گردی کے چمٹے ناسور کے باعث خوف و ہراس کی فضا میں سوگواری کا رنگ بھرا‘ وہیں دہشت گردی کی جنگ میں کامیابی سے متعلق سول اور عسکری قیادت کے دعوئوں کے بارے میں کئی سوالات نے بھی جنم لیا جبکہ سول اور عسکری قیادتیں پھر سے سر جوڑ کر بیٹھیں اور دہشت گردی کے خاتمے کے مزید فیصلہ کن اقدامات طے کئے جس کے تحت نیشنل ایکشن پروگرام پر اڑھائی ماہ کے اندر اندر مکمل عملدرآمد اور ملک بھر میں کومبنگ آپریشن تیز کرنے کا اعلان کیا گیا اور اس مقصد کیلئے سکیورٹی فورسز اور سکیورٹی ایجنسیوں کو مزید اختیارات دیدیئے گئے۔ اگر قوم دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے حکمرانوں اور عسکری قائدین کے اعلان کردہ اب تک کے اقدامات پر مطمئن ہوتی تو آج لوگوں کے چہروں پر خوف و ہراس کے بجائے اطمینان و اعتماد کی جھلک اجاگر نظر آتی مگر دہشت گرد گروہ اتنے منظم ہیں اور ان کا نیٹ ورک اتنا مضبوط ہے کہ وہ ہماری سکیورٹی ایجنسیوں کو بھی دھوکہ دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں اور اپنے ہر متعینہ ہدف تک پہنچ کر دہشت گردی یا خودکش حملے کی واردات کی صورت میں حکومتی ریاستی اتھارٹی اور سکیورٹی اداروں کی صلاحیتوں کو بھی مسلسل چیلنج کر رہے ہیں۔ ان کے اعتماد کا اس سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی جانب سے چار روز قبل کوئٹہ میں کی گئی دہشت گردی کی سفاکانہ واردات کے بعد پوری حکومتی مشینری اور سکیورٹی ایجنسیوں کا ہر کل پرزہ متحرک ہو چکا ہے اور سول و عسکری قیادتوں کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمہ کے نئے عزم کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود دہشت گردوں نے کوئٹہ میں ہی دہشت گردی کی نئی واردات کر ڈالی جس کے باعث ہمارے سکیورٹی اداروں میں موجود خامیاں اور کمزوریاں مزید اجاگر ہو گئی ہیں۔
اس بنیاد پر حکومتی اتحادی دو جماعتوں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہان محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن نے سانحہ کوئٹہ پر انٹیلی جنس اور سکیورٹی ایجنسیوں کو سکیورٹی انتظامات میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا اور ان سے جوابدہی کا تقاضا کیا جسے بعدازاں قومی اسمبلی میںاپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے بھی دہرایا اور پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کی جانب سے سکیورٹی اداروں کی جوابدہی کیلئے پارلیمانی کمشن بنانے کا تقاضا کیا گیا۔ اس پر وزیراعظم میاں نوازشریف اور وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان سمیت حکومت کی جانب سے جس انداز میں سکیورٹی اداروں کا دفاع کیا گیا اور بالخصوص چودھری نثار علی خان نے قومی اسمبلی کے فورم پر جس جارحانہ انداز میں اپوزیشن پر چڑھائی کی جس سے زچ ہوکر اپوزیشن ارکان اجلاس کی کارروائی کے بائیکاٹ پر مجبور ہوئے۔ وہ دہشت گردی کی جنگ سے متعلق حقائق سے پہلوتہی کرنے کے مترادف ہے۔ اگر ہمارے سکیورٹی ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں اتنا ہی فعال کردار ادا کر رہی ہوتیں جس کے بارے میں وزیراعظم اور وزیرداخلہ نے دعویٰ کیا ہے تو کیا دہشت گردوں کو کوئٹہ سانحہ کے چار روز بعد سخت ترین حفاظتی انتظامات کے باوجود کوئٹہ ہی میں دوبارہ دہشت گردی کی جرأت ہوتی؟
اگر دہشت گرد آج بھی اس طرح حکومتی ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرتے نظر آرہے ہیں اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں تو ہمارے سکیورٹی انتظامات میں کہیں نہ کہیں تو کوئی گڑبڑ ہے جس سے دہشت گردوں کو فائدہ اٹھانے کاموقع مل رہا ہے۔ اس لئے دہشت گردی کی جنگ میں سکیورٹی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار پر سوال اٹھ رہے ہیں اور ان کی جوابدہی کا تقاضا کیا جا رہا ہے تو اس پر چیں بجبیں ہونے کے بجائے غلطیوں اور خامیوں کی اصلاح کا سوچا جانا چاہئے۔
جب ریاستی اتھارٹی کی حیثیت سے ہمارے سکیورٹی ادارے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے آئینی طورپر ذمہ دار ہیں اور اس فرض کی ادائیگی کیلئے قوم کے پیسوں سے دفاعی بجٹ کیلئے خطیر رقوم مختص کی جاتی ہیں تو یہ اپنی کارکردگی کے معاملہ میں قوم کے سامنے کیوں جوابدہ نہیں ہو سکتے جبکہ دہشت گردی کی جنگ ہر صورت جیتنے کیلئے ان کی اصلاح احوال کی جانب توجہ دینا ضروری بھی ہے۔ قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اور سینٹ کے اپوزیشن لیڈر چودھری اعتزازاحسن نے گزشتہ روز کوئٹہ پہنچنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسی تناظر میں باور کرایا ہے کہ چار دن پہلے کے دھماکہ کے بعد آج کوئٹہ میں دوبارہ دھماکہ ہونا ہماری سکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی کی ہی غمازی کرتا ہے اور اس ناکامی کا باعث نیشنل ایکشن پلان پر عملدآمد نہ ہونا ہے۔ سید خورشید شاہ کے بقول نیشنل ایکشن پلان کے نکات پر عملدرآمد ہو جائے تو یقینا دہشت گردی رک سکتی ہے جبکہ بم دھماکے ہماری سکیورٹی ایجنسیوں کی ہی ناکامی ہیں۔
کیا ہمارے لئے یہ المیہ نہیں کہ سانحہ کوئٹہ کے باعث آج پورا ملک غم میں ڈوبا ہوا ہے اور کوئٹہ میں جشن آزادی کی تمام تقریبات منسوخ کر دی گئی ہیں۔ ہماری سول اور عسکری قیادتوں کیلئے تو یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہئے کہ دہشت گرد ہمارے عالی دماغوں اور معاشرہ کی کریم کو چُن چُن کر قتل کر رہے ہیں۔ دو سال قبل دہشت گردوں نے آرمی پبلک سکول پشاور میں مستقبل کے معمارں کا قتل عام کیا جو ایک طرح سے ہماری پوری نئی نسل کو ختم کرنے کی گھنائونی سازش تھی جبکہ سانحہ کوئٹہ میں ملک کی اس کریم وکلاء کو ختم کرنے کی مکروہ سازش کی گئی جنہوں نے تخلیق پاکستان میں معمار کا کردار ادا کیا ہے۔ اگر سفاک دہشت گرد ملک کے مستقبل کی امیدوں کو ختم کرنے کے درپے ہیں تو ان کے مکمل صفایا کیلئے ہمارے سکیورٹی اداروں کے انتظامات میں کوئی خامی کیوں رہنے دی جائے۔ یہ کسی کی انا کا نہیں‘ ملک کے مستقبل کا معاملہ ہے۔ اس لئے سکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں میں اصلاح کا جو بھی اقدام ممکن ہے‘ وہ اٹھا لیا جائے اور اب عملیت پسندی کے کسی پہلو کو نظرانداز نہ ہونے دیا جائے۔ آج نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کا اپوزیشن کی جانب سے تقاضا کیا جا رہا ہے تو حکومت کیلئے اس معاملہ میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہئے۔ یہ پلان کامیاب ہوگا تو اس سے حکومتی ریاستی اتھارٹی ہی مؤثر ہوگی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024